Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سینکڑوں طالبان جنگجو پنجشیر کی جانب روانہ، ’دفاع کے لیے تیار ہیں‘

پنجشیر طویل عرصے سے طالبان مخالفین کے گڑھ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
طالبان نے اپنے سینکڑوں جنگجو وادی پنجشیر کی جانب بھیجنے کا اعلان کیا ہے جو کہ ابھی تک طالبان کے قبضے میں نہیں آیا ہے۔ 
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طالبان نے اتوار کو کہا ہے کہ ان کے ‘سینکڑوں‘ جنگجو پنجشیر وادی کی طرف جا رہے ہیں۔ پنجشیر افغانستان کےان چند حصوں میں سے ایک ہے جو ابھی تک طالبان کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔
طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد سے کابل کے شمال میں واقع وادی پنجشیر میں مزاحمت کی لہریں ابھرنا شروع ہو گئی ہیں۔ وہاں سابق حکومت کے کچھ فوجی جمع ہونا شروع ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ پنجشیر طویل عرصے سے طالبان مخالفین کے گڑھ کے طور پر جانا جاتا ہے۔
طالبان نے اپنے عربی ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا کہ’ مقامی حکام کی جانب سے علاقہ پرامن طریقے سے حوالے کرنے سے انکار کے بعد امارت اسلامیہ کے سینکڑوں مجاہدین پنجشیر کو کنٹرول کرنے کے لیے اس کی طرف جا رہے ہیں۔‘
طالبان مخالف قوتوں کے ترجمان ترجمان علی میثم نظاری کے مطابق جب سے طالبان نے دارالحکومت کابل کا کنٹرول سنبھالا ہے ہزاروں افراد نے پنجشیر کا رخ کیا ہے۔
علی میثم نظاری نے اے ایف پی کو بتایا  کہ پنجشیر میں مشہور کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود نے طالبان عسکریت پسندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تقریباً 9 ہزار افراد کی ایک فورس جمع کی ہے۔ احمد مسعود کے والد احمد شاہ مسعود کو 11 ستمبر 2001 کے حملوں سے دو دن پہلے القاعدہ نے قتل کر دیا تھا۔
اے ایف پی کی طالبان مخالف قوتوں کی تربیتی مشقوں کے دوران لی گئی تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ بھرتی کیے گئے درجنوں افراد جسمانی ریاضت کے معمولات انجام دے رہے ہیں اور مٹھی بھر بکتر بند گاڑیاں کابل کی شمال مشرقی وادی میں چلا رہے ہیں۔
علی میثم نظاری نے کہا کہ یہ گروپ ایک نیا نظام حکومت چاہتا ہے لیکن ضرورت پڑنے پر لڑنے کے لیے تیار ہے۔

تمام افغان پارٹیوں پر مشتمل وسیع البنیاد حکومت قائم کی جائے: احمد مسعود 

احمد مسعود نے اتوار کو سعودی عرب کے نشریاتی ادارے العربیہ کو بتایا کہ ’کئی افغان صوبوں سے سرکاری افواج پنجشیر آئی ہیں۔‘

پنجشیر طویل عرصے سے طالبان مخالفیں کا گڑھ جانا جاتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’اگر طالبان اس راستے پر چلتے رہے تو یہ زیادہ دیر نہیں چلے گا۔ ہم افغانستان کے دفاع کے لیے تیار ہیں اور ہم انہیں ایک خونریزی سے خبردار کرتے ہیں۔‘
اس سے قبل احمد مسعود نے خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ بات کرتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ کابل کے اقتدار پر قبضہ کرنے والوں کے ساتھ پُرامن مذاکرات ہوں گے لیکن انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی فورسز لڑائی کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے اتوار کے ٹیلی فون کے ذریعے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ مذاکرات ہیں۔
احمد مسعود نے پنجشیر میں آرمی یونٹس اور سپیشل فورسز کے ساتھ ساتھ مقامی ملیشیا کے یونٹس بھی اکھٹے کیے ہیں۔
احمد مسعود نے کہا کہ ’ہم نہیں چاہتے کہ جنگ چھڑ جائے۔‘
تاہم انہوں نے کہا کہ طالبان فورسز جو اب تک پنجشیر سے باہر ہیں، اگر انہوں نے حملہ کرنے کی کوشش کی تو ان کی فورسز طالبان سے لڑنے کے لیے تیار ہیں۔

احمد مسعود نے کہا کہ ہم پورے ملک کا ایک ہی صوبے میں دفاع کر رہے ہیں۔ (فوٹو: اے پی)

’وہ دفاع کرنا چاہتے ہیں، وہ لڑنا چاہتے ہیں، وہ کسی بھی مطلق العنان حکومت کے خلاف مزاحمت کرنا چاہتے ہیں۔‘
احمد مسعود، احمد شاہ مسعود کے بیٹے ہیں جو 80 کی دہائی میں سوویت مخالف مزاحمت کے اہم رہنماؤں میں سے ایک تھے۔
احمد مسعود کا کہنا ہے کہ ان کی فورسز نہ صرف پنجشیر سے آئیں۔ ’ہم پورے ملک کا ایک ہی صوبے میں دفاع کر رہے ہیں۔‘ 
انہوں نے کابل میں تمام افغان پارٹیوں پر مشتمل وسیع البنیاد حکومت کا مطالبہ کیا جس میں افغانستان کے تمام نسلی گروہوں کی نمائندگی ہو۔ 
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو ایک مطلق العنان حکومت کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔

شیئر: