Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے تین کان کنوں کو قتل کردیا

صوبائی محکمہ معدنیات کے مطابق بلوچستان کے چھ اضلاع میں کوئلہ کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں نامعلوم شدت پسندوں نے کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے تین کان کنوں کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ واقعہ پیر اور منگل کی درمیانی شب بارہ بجے کے لگ بھگ کوئٹہ سے تقریباً ستر کلومیٹر دور مارواڑ میں پیش آیا جہاں نامعلوم افراد نے دو مختلف کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے کانکنوں کو نشانہ بنایا۔
ہنہ پولیس تھانہ کوئٹہ کے ایس ایچ او گل محمد نے اردو نیوز کو ٹیلی فون پر بتایا کہ 'نامعلوم افراد نے دینار کول کمپنی کے دو کانکنوں گل حکیم اور عبدالوکیل اور نیشنل کول کمپنی کے ایک کانکن ہدایت الرحمان کو گولیاں مار کر قتل کیااوررات کے اندھیرے میں فرار ہوگئے۔'
ایس ایچ او نے مزید بتایا کہ جائے وقوعہ سے فرنٹیئر کور غازہ بند سکاؤٹس کی حیدر چیک پوسٹ نصف کلومیٹر دور ہے تاہم انہیں بھی واقعہ کی اطلاع تاخیر سے ملی کیونکہ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے وہاں کوئی موبائل فون نیٹ ورک کام نہیں کرتا۔
انہوں نے بتایا کہ کانکنوں کی لاشیں کوئٹہ لانے کے لئے ہنہ سے پولیس کی ٹیم روانہ کی گئی ۔ انہوں نے بتایا کہ مقتول کانکنوں میں ایک تعلق کوئٹہ اور دو کا خیبر پختونخوا سے بتایا جاتا ہے ۔
پولیس کا کہنا ہے کہ واقعہ کے محرکات کا فوری طور پر پتہ نہیں چل سکا ہے تاہم ماضی میں پیش آنے والے اس طرز کے حملوں میں علیحدگی پسند و مذہبی شدت پسند تنظیمیں ملوث پائی گئی ہیں۔
رواں سال کے آغاز میں ضلع کچھی کے علاقے مچھ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے دس کوئلہ کانکنوں کو تیز دھار آلے کی مدد سے قتل کر دیا گیا تھا۔ اس واقعہ کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔
اس حملے کے بعد امن وامان کے خدشات کی وجہ سے کوئٹہ اور کچھی کے علاقوں میں ہزاروں کانکن کام چھوڑ کر اپنے آبائی علاقوں کو چلے گئے تھے جس کی وجہ سے سینکڑوں کانیں کئی ماہ تک بند رہیں۔
صوبائی محکمہ معدنیات کے مطابق کوئٹہ سمیت بلوچستان کے چھ اضلاع کے پہاڑی علاقوں میں کوئلہ کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں ۔ ان کوئلہ کانوں میں 70 ہزار کانکن کام کرتے ہیں جن میں سے اکثریت کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے۔
ان کانکنوں کو دوہرے خطرات کا سامنا ہے۔ کان کے اندر حفاظتی آلات اور مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال اوسطاً 100 کانکن لقمہ اجل بنتے ہیں جبکہ کان کے باہر انہیں شد ت پسند اغوا اور قتل کرتےہیں۔حکومت بلوچستان نے کانکنوں کی حفاظت کے لئے فرنٹیئر کور کے سینکڑوں اہلکار تعینات کر رکھے ہیں۔ 
ترجمان حکومت بلوچستان لیاقت شاہوانی کا کہنا ہے کہ کانکنوں کی حفاظت کےلئے حکومت نے پہلے بھی اقدامات کیے تھے اور مزید اقدامات بھی کیے جائیں گے۔

شیئر: