Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’برطانیہ کا پاکستان کو ریڈلسٹ میں رکھنا سیاسی فیصلہ‘

ریڈلسٹ میں شمولیت کی وجہ سے برطانیہ جانے والوں کو سفری مشکلات کا سامنا رہتا ہے (فوٹو: پاکستانی ہائی کمیشن)
برطانیہ کی جانب سے سفری پابندیوں سے متعلق ریڈ لسٹ میں سے پاکستان کا نام نہ نکالنے اور کورونا وبا سے زیادہ متاثرہ ملکوں کو اس سے خارج کر دینے کے فیصلے کے بعد برطانوی حکومت کے اس فیصلے پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔
گزشتہ روز برطانیہ کی جانب سے اپ ڈیٹ کی گئی ریڈ لسٹ شیئر کی گئی تھی جس میں پاکستان کو ریڈ لسٹ سے خارج کردہ ملکوں کی فہرست میں نہیں دکھایا گیا تھا۔
ریڈ لسٹ کا معاملہ سامنے آیا تو برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں سمیت پاکستان میں بھی مختلف سوشل میڈیا صارفین نے برطانوی حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے دیگر حقائق کا حوالہ دیا تو فورا صورتحال بہتر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
برطانوی حکومت کے ریڈ لسٹ سے متعلق فیصلے پر گفتگو آگے بڑھی تو پاکستان میں وفاقی حکومت کی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی اسے ’سیاسی فیصلہ‘ قرار دے ڈالا۔
ٹوئٹر پر جاری کردہ پیغام میں شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ ’برطانوی حکومت کی جانب سے پاکستان کو ریڈلسٹ میں برقرار رکھنا خالصتا سیاسی فیصلہ ہے۔ برطانوی حکومت کورونا وبا سے متعلق اعدادوشمار سے واقف ہے۔‘
اپنی ٹویٹ میں ایک پاکستانی پروفیسر کے میسیج کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے برطانوی حکومت کی جانب سے ڈیٹا نہ ماننے کو ’سامراجی تکبر‘ سے تعبیر کیا۔

شیریں مزاری کی ٹویٹ پر تبصرہ کرنے والے کچھ صارفین نے جہاں ان کے موقف کی پزیرائی کرتے ہوئے برطانوی حکومت کے اس فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا، وہیں کچھ ایسے بھی تھے جو پاکستانی وزیر سے سوال کرتے نظر آئے کہ ان کی وزارت خارجہ کیا کر رہی ہے۔

پاکستان کی انسانی حقوق کی وزیر سے قبل برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن بھی اس معاملے کو مشکلات میں اضافہ کا سبب قرار دے چکا ہے۔
جمعرات کو برطانوی فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن نے کہا ہے کہ ’پاکستان کو ریڈ لسٹ میں رکھنے کے فیصلے سے مایوسی ہوئی۔
ٹوئٹر پر جاری کردہ ردعمل میں لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کا کہنا تھا کہ ’ہزاروں پاکستانیوں اور برطانوی نژاد پاکستانیوں کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ تمام متعلقہ ڈیٹا مہیا کیا گیا تھا۔‘

افغانستان سے انخلا کے عمل کے دوران غیرملکیوں کے لیے پاکستان کے انتظامات کا ذکر کرتے ہوئے کچھ صارفین نے برطانوی فیصلے پر ناپسندیدگی ظاہر کی تو لکھا ’ہم نے اسلام آباد کے ہوٹل خالی کرائے، نہ کوئی کورونا ٹیسٹ کیا نہ قرنطینہ کی مدت کا کہا، وہ ہمارے ساتھ اب بھی کیوں برطانوی کالونی کے طور پر برتاؤ کر رہے ہیں۔‘

یہ پہلا موقع نہیں کہ سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ صارفین کی جانب سے برطانوی حکومت کے ریڈ لسٹ سے متعلق فیصلے کا تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد مختلف پاکستانیوں کی جانب سے برطانوی حکومت کو اپنے فیصلے پر نظرثانی پر آمادہ کرنے کے لیے ایک آن لائن پٹیشن بھی دائر کی گئی تھی۔
برطانیہ نے رواں برس 9 اپریل کو پاکستان سمیت چار ممالک کو ریڈ لسٹ میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔  برطانیہ نے پاکستان کو ریڈ لسٹ میں شامل کرنے کے دو ہفتوں بعد انڈیا کو ریڈ لسٹ میں شامل کیا تھا تاہم بعد میں انڈیا کو ریڈ سے عنبر ٹریول لسٹ میں شامل کردیا گیا تھا۔
سوشل میڈیا پر متعدد صارفین نے اس معاملے کی نشاندہی کی تو پاکستانی وزیر سے سوال کیا کہ برطانیہ کو کیسے نظرثانی پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔

ریڈ لسٹ میں شامل ملکوں سے صرف برطانوی شہریوں یا قیام کی اجازت رکھنے والے افراد کو ہی برطانیہ آنے کی اجازت ہے۔ اس فہرست میں شامل ممالک سے آنے والوں کو 10 دن ہوٹل میں قرنطینہ میں رہنا ہوگا۔ قرنطینہ کے اخراجات میں بھی تقریباً 400 پاؤنڈ کا اضافہ کیا گیا تھا۔
 

شیئر: