Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خواتین پارلیمنٹیرینز کو واٹس ایپ گروپس میں غیر اخلاقی مواد شیئر کرنے کا انکشاف

ناز بلوچ نے بتایا کہ ’نیا ٹرینڈ چلا ہے کہ بین الاقوامی نمبرز سے واٹس ایپ میسجز کرکے تنگ کیا جاتا ہے‘ (فوٹو: سکرین گریب)
پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ بین الاقوامی نمبروں سے واٹس ایپ گروپ بنا کر اور ارکان پارلیمنٹ کو شامل کرکے ان گروپس میں غیر اخلاقی اور نازیبا مواد شیئر کیا جاتا ہے۔
دوسری جانب پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے حکام نے کہا ہے کہ ’وہ غیر ملکی نمبروں کو بلاک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ متعلقہ ایپ کی انتظامیہ کے ساتھ معاملہ اٹھایا جا سکتا ہے۔‘
کمیٹی اجلاس کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کی خاتون رکن قومی اسمبلی ناز بلوچ نے انکشاف کیا کہ ’نامعلوم غیرملکی نمبروں کے وٹس ایپ گروپ میں خواتین ارکان پارلیمنٹ کو شامل کرکے اس میں غیر اخلاقی مواد بھیجا گیا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’چند دن قبل واٹس ایپ پر ایک نمبر سے کچھ میسجز موصول ہوئے جس کے بعد میں نے اس نمبر کو بلاک کر دیا لیکن کچھ دیر بعد اسی نمبر سے ایک واٹس ایپ گروپ تشکیل دیا گیا جس میں متعدد خواتین ارکان پارلیمنٹ جن کا تعلق اپوزیشن تھا اس گروپ میں شامل تھیں۔ اس گروپ میں غیر اخلاقی مواد بھیجا گیا۔ ہم نے اس گروپ کو چھوڑا تو دوبارہ شامل کر دیا گیا۔ جس کے بعد ہم نے اس گروپ کو رپورٹ کیا۔‘
ناز بلوچ کی شکایت پر کمیٹی نے جب پی ٹی اے سے جواب مانگا گیا تو حکام نے کہا کہ ’پی ٹی اے پاکستانی ٹیلی کام کمپنیوں کے جاری کردہ نمبرز تو بلاک کر سکتی ہے لیکن غیر ملکی نمبرز کو بلاک کرنا پی ٹی اے کے اختیار میں نہیں ہے۔‘
پی ٹی اے کے حکام نے بتایا کہ ’واٹس ایپ ایک او ٹی ٹی ایپ ہے جس کو استعمال کرنے کے لیے سکیورٹی فیچرز صارف کے پاس ہیں۔ اس لیے اگر کسی نمبر سے میسج آتا ہے تو اسے بلاک اور رپورٹ کر دینا چاہیے۔ رپورٹ کرنے سے ایسی تمام ایپس متعلقہ نمبرز کے خلاف خود بہتر ایکشن لیتی ہیں۔‘

پی ٹی اے حکام نے بتایا کہ’ وہ واٹس ایپ کی لوکیشن معلوم نہیں کر سکتے‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)

پی ٹی آے حکام نے کہا کہ ’ہم موبائل فون کی لوکیشن معلوم کر سکتے ہیں، لیکن واٹس ایپ کی لوکیشن معلوم نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی پاکستانی نمبر لے کر واٹس ایپ پر اکاؤنٹ بنائے اور سم توڑ دے اور باہر ملک سے جا کر اس واٹس ایپ کو استعمال کرے تو ہم اسے ٹریس نہیں کر سکتے۔‘
’ہم پلیٹ فارم کو رابطہ کرکے کہہ سکتے ہیں کہ اس معاملے کو دیکھے۔ لیکن سوشل میڈیا پیلٹ فارم، ریگولیٹر سے کہیں زیادہ صارفین کے مسائل پر انھیں جواب دیتے ہیں۔ ہم بھی اس کیس کی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو شکایت کریں گے، لیکن وہ ہم سے زیادہ جلدی صارفین کی شکایت کو دیکھیں گے۔‘
اس معاملے پر اردو نیوز سے گفتگو میں ناز بلوچ نے کہا کہ ’یہ نیا ٹرینڈ چلا ہے کہ بین الاقوامی نمبرز سے واٹس ایپ میسجز کرکے تنگ کیا جاتا ہے۔ غلط میسجز کیے جاتے ہیں اور تنگ کیا جاتا ہے۔ پریشانی اس بات کی ہے کہ جب ارکان پارلیمنٹ خود کو محفوظ تصور نہیں کرتے تو عام آدمی کا کیا حال ہوگا۔ پورے پاکستان میں سائبر کرائمز بڑھ رہے ہیں۔ خواتین کو ہراساں کیا جا رہا ہے لیکن ایف آئی اے اور ہمارے ادارے کیا کر رہے ہیں؟'
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ ’ویڈنگ‘ کے نام سے بنائے گئے واٹس ایپ گروپ میں معلوم نہیں کہ باقی نمبر کن کے تھے لیکن جو نام سامنے آئے وہ اپوزیشن کی خواتین ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹرز کے تھے جنھوں نے گروپ چھوڑ دیا۔ میں کسی پر الزام نہیں لگاتی کہ ایسا کس نے کیا لیکن ہم چاہتے ہیں کہ اس کا پتا چلایا جائے۔ واٹس ایپ کو لکھا جائے اور مستقل حل تلاش کیا جائے۔‘

شیئر: