Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

متعدد افغان پائلٹس اور فوجی ازبکستان میں، ’وہ ہمیں مار دیں گے‘

کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد متعدد افغان پائلٹس ازبکستان بھاگ گئے تھے۔ (فوٹو: روئٹرز)
امریکہ سے تربیت یافتہ افغان پائلٹس اور دیگر افغان سکیورٹی فورسز جو ازبکستان کے ایک کیمپ میں موجود ہیں، کو پہلے ہی سے  طالبان کے افغانستان بھیجے جانے کا خدشہ ہے۔ تاہم جب دوسرے دن ایک ازبک گارڈ نے روکھے انداز میں کہا کہ ’آپ یہاں ہمیشہ کے لیے نہیں رہ سکتے۔‘ تو یہ بات ان کے لیے قابل تشویش تھی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اگست میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد یہ پائلٹس ازبکستان بھاگ گئے تھے۔
کیمپ میں موجود افغانستان کے سکیورٹی فورسز کے اہلکار گذشتہ تین ہفتوں سے انتظار کر رہے ہیں کہ امریکہ ان کو یہاں سے نکال لے گا۔
فون پر روئٹرز کے ساتھ بات کرتے ہوئے ایک افغان پائلٹ نے بتایا کہ ’اگر وہ ہمیں واپس بھیجتے ہیں تو مجھے سو فیصد یقین ہے کہ وہ ہمیں مار دیں گے۔‘
اس پائلٹ نے انتقام کے خوف سے نام بتانے سے منع کیا۔ افغان پائلٹ نے بتایا کہ یہاں افغان نظروں سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
’انتہائی محدود نقل و حرکت، زیادہ دیر دھوپ میں رہنے، ناکافی خوراک اور ادویات کے ساتھ ان کو ایک قیدی کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ کچھ کا تو وزن بھی کم ہوا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم جیسے جیل میں ہیں، ہمیں یہاں کوئی آزادی نہیں۔‘
اگست کے آخر میں روئٹرز کو فراہم کی گئی سیٹیلائٹ تصاویر میں کیمپ کے اردگرد اونچی دیواروں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سے قبل اس کیمپ کے ہاؤسنگ یونٹس میں کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کیا گیا تھا۔ یہ کیمپ ترمذ شہر کے قریب ہے۔
امریکہ کے موجودہ اور سابق عہدیدار ازبکستان میں افغان اہلکاروں اور طیاروں کو نکالنے میں ناکامی پر امریکی حکومت پر تنقید کر رہے ہیں جبکہ امریکی عہدیداروں نے ازبکستان پر طالبان کے دباؤ سے متعلق بھی خبردار کیا ہے۔

افغان پائلٹ کا کہنا ہے کہ کیمپ جیل کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

ڈیموکریٹس سینیٹر جیک ریڈ جو سینیٹ کے آرمڈ سروسز کمیٹی کے سربراہ ہیں، نے کہا ہے کہ ازبکستان میں موجود افغان پائلٹس اور اور فورسز کے اہلکاروں کے بارے میں انہیں ’انتہائی تشویش‘ ہے۔
ازبکستان میں امریکہ کے سابق سفیر جان ہربسٹ کا خیال ہے کہ ان فوجیوں کی حوالگی سے متعلق ازبکستان کو طالبان کی جانب سے دباؤ کا سامنا ہے۔
’وہ طالبان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں، وہ انہیں اشتعال نہیں دلانا چاہتے لیکن وہ ہمیں بھی اشتعال نہیں دلانا چاہتے۔‘
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ اس معاملے پر ازبکستان کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے لیکن اس کے ساتھ اس بات پر بھی زور دیا کہ افغان اہلکار اور طیارے محفوظ ہیں۔
کئی درخواستوں کے باوجود ازبکستان کی حکومت نے اس معاملے پر کوئی جواب نہیں دیا۔
طالبان کے قبضے سے پہلے امریکی تربیت یافتہ اور انگریزی بولنے والے افغان پائلٹس ان کا اہم ہدف تھے۔
طالبان کے خلاف جنگ ہارنے کے بعد کچھ افغان پائلٹس 46 طیاروں کے ساتھ ملک سے فرار ہوئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر کابل سے گئے تھے۔

افغان پائلٹس اہم فوجی طیاروں ہیلی کاپٹرز میں ساتھیوں سمیت ازبکستان پہنچے تھے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز) 

درجنوں پائلٹس کے علاوہ اس کیمپ میں ایئرفورس کے مینٹیننس کے اہلکار اور دیگر سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی موجود ہیں۔
کچھ اپنے خاندانوں کو جہازوں میں ساتھ لانے میں کامیاب ہوئے لیکن زیادہ تر اپنے رشتہ داروں کے لیے خوفزدہ ہیں۔
کابل کے کنٹرول کے بعد روئٹرز سے بات کرتے ہوئے ایک سینیئر طالبان رہنما نے کہا تھا کہ ہم اپنے طیارے وصول کریں گے۔
طالبان نے یہ بھی کہا تھا کہ پائلٹس سمیت سابق فوجی اہلکاروں کو اپنی نئی سکیورٹی فورسز میں شمولیت کی دعوت دیں گے اور کوئی انتقامی کارروائی نہیں کریں گے۔

شیئر: