Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملک واپس لوٹنے والے شامی مہاجرین کو تشدد کا سامنا، ایمنسٹی انٹرنیشنل

رپورٹ میں ان دعوں کی تردید کی گئی ہے جن کے مطابق شام کے کچھ حصے اب واپس لوٹنے کے لیے محفوظ ہیں۔ (فائل فوٹو: اے پی)
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ شام واپس لوٹنے والے مہاجرین کو سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد کا سامنا ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ملک کے کسی بھی حصے میں واپس جانا اب بھی محفوظ نہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق منگل کو شائع ہونے رپورٹ کا عنوان ہے ’آپ اپنی موت کی طرف جا رہے ہیں‘ جس میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ سال 2017 کے وسط سے لے کر 2021 تک شام میں انٹیلی جنس افسران نے ملک لوٹنے والے 66 مہاجرین پر تشدد کیا تھا جن میں 13 بچے بھی شامل تھے۔
خانہ جنگی کے بعد شام لوٹنے والے 66 مہاجرین، جن پر تشدد کیا گیا، میں سے پانچ کیسز ایسے تھے جن میں متاثرین انٹیلی جنس کی حراست میں ہلاک ہو گئے تھے جبکہ جبری طور پر گمشدہ ہونے والے 17 افراد کا اب تک کچھ پتہ نہیں لگایا جا سکا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنشنل کی رپورٹ میں ان دعوں کی تردید کی گئی ہے جن کے مطابق شامل کے کچھ حصے اب واپس لوٹنے کے لیے محفوظ ہیں۔
رپورٹ میں ڈینمارک، سویڈن اور ترکی پر مہاجرین پر شام واپس لوٹنے کے لیے دباؤ ڈالنے پر تنقید کی گئی ہے۔ لبنان اور اردن پر بھی تنقید کی گئی ہے، جہاں شامی مہاجرین کی بڑی تعداد موجود ہے۔
لبنان اور ترکی میں مہاجرین کسمپرسی کی حالت میں گزارا کر رہے ہیں اور وہاں کی حکومتوں نے شامی افراد پر اپنے ملک واپس لوٹنے کے لیے دباؤ ڈالا ہوا ہے۔
تفصیلات کے مطابق گذشتہ دو سالوں میں ترکی نے بھی کئی شامی مہاجرین کو جبری طور پر ملک سے نکالا ہے جو مہاجرین مخالف جذبات کی عکاسی ہے کیونکہ ایک وقت تھا کہ ترکی نے خانہ جنگی سے بچ کر نکلنے والے لاکھوں شامی افراد کے لیے اپنی سرحد کھول رکھی تھی۔

لبنان اور ترکی میں مہاجرین کسمپرسی کی حالت میں گزارا کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

رواں سال کے آغاز میں ڈنمارک اور سویڈن نے کچھ شامی مہاجرین کے رہائش کے اجازت نامے یہ کہہ کر منسوخ کرنا شروع کر دیے تھے کہ شام کا دارالحکومت دمشق اور اس کے قریب کے شہر اب محفوظ ہیں۔
کچھ ماہرین اس بات سے متفق ہیں۔
شام میں حکومت کے زیر انتظام کچھ علاقوں میں سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہے۔ تاہم ملک میں جبری گمشدگی جیسے واقعات اب بھی سامنے آرہے ہیں۔
اس کے علاوہ کئی علاقے تباہ کر دیے گئے ہیں اور بہت سے مہاجرین کے پاس اب واپس لوٹ کر رہنے کے لیے کوئی رہائش گاہ موجود نہیں ہے۔ پانی اور بجلی جیسی بنیادی ضرورت بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک محقق میری فوریسٹیئر کا کہنا ہے کہ جو بھی حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ شام اب محفوظ ہے وہ حقیقت کو نظر انداز کررہی ہے۔

شیئر: