Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل سے دلی: ابا جان کی دکان

آدتیہ ناتھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وزیراعظم منتخب ہو سکتے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
یہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کا نام تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔ جی ہاں، یوگی آدتیہ ناتھ، انہیں بس سادھو ہی سمجھیے، سیاست تو بس عوام کی بے لوث خدمت کے لیے کرتے ہیں۔ ان میں ایک بڑی خوبی ہے، وہ کچھ بھی برداشت کرسکتے ہیں لیکن مذہب کے نام پر منافرت یا تفریق نہیں۔
بالکل وزیراعظم نریندر مودی کی طرح۔
مسٹر مودی کی ہی طرح ان کی سیاست کا بھی بس ایک ہی نصب العین ہے: سب کا ساتھ، سب کا وکاس (ترقی) اور سب کا وشواس (اعتماد)۔
ایک مثالی معاشرہ تعمیر کرنا ہو یا الیکشن جیتنا ہو، اس سے بہتر کوئی نعرہ نہیں ہوسکتا۔ کون اتنا احسان فراموش اور بے وقوف ہوگا کہ کہے کہ بھائی انہیں ووٹ مت دینا کیونکہ یہ تو سب کو ساتھ لے کر چلنے، سب کے لیے ترقی کے برابر مواقع فراہم کرنےاور سب کا دل جیتنے کی بات کرتے ہیں۔
لیکن سب کہاں اتنے سمجھدار ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ پوچھتے ہیں کہ اگر سب کی برابر ترقی ہو جائے گی تو امبانی اور ادانی جیسے صنعتکاروں اور غریب آدمی میں کیا فرق رہ جائے گا؟ کیا یہ امبانی ادانی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی؟ اگر سبھی امیر ہو جائیں گے تو گھروں میں، کھیتوں میں اور عمارتوں کے تعمیراتی منصوبوں پر کون کام کرے گا؟
کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے بھی مل جائیں گے کہ ہم تو اصول کی بات کرتے ہیں۔ اگر واقعی یہ بات سچ ہوتی تو کیا بی جے پی نے حزب اختلاف والوں کو بھی حکومت میں شامل نہ کر لیا ہوتا؟ کیا یہ اپوزیشن والے اس ملک کے شہری نہیں ہیں؟ کتنے برسوں سے وہ بے چارے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں؟ ان کی دال روٹی کیسے چلے گی؟
بات میں کچھ دم بھی ہے۔
جب 2014 میں نریندر مودی وزیراعظم کے عہدے کے لیے اپنی دعویداری پیش کر رہے تھے تو ہر جلسے میں وہ کانگریس ’مکت‘ بھارت ( کانگریس پارٹی سے آزاد ہندوستان) کی بات کرتے تھے۔

نریندر مودی کے مطابق ریاست میں قبرستان بنتے ہیں تو شمشان کیوں نہیں۔ فوٹو اے ایف پی

اس وقت ہم سمجھتے تھے کہ الیکشن ختم ہوتے ہی کہا جائے گا کہ اپنا بوریا بستر باندھو اور نکل لو، جہاں جانا ہو جاؤ کیونکہ ہندوستان کو تو ہم کانگریس کی دقیانوسی سیاست سے آزاد کرانے کا اعلان کر چکے ہیں۔
لیکن سات سال بعد بھی کانگریس والے وہیں کے وہیں موجود ہیں۔ نہ الیکشن جیتتے ہیں اور نہ جینتے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر کسی نے سمجھایا کہ الیکشن کے نعرے صرف الیکشن میں استعمال کے لیے ہی بنائے جاتے ہیں۔ ووٹنگ ختم ہوئی اور انہیں اگلے الیکشن تک کے لیے سنبھال کر رکھ دیا۔ ذرا سوچیے کہ اگر ملک میں کانگریس اور راہل گاندھی نہ ہوں تو وزیراعظم کی تقریر کتنے دیر چلے گی؟
آپ کو کانگریس اور اس کے نعروں کی مثال دیتے ہیں۔
کانگریس کے ایک سابق رہنما شرد پوار نے پارٹی کی قیادت کا موازنہ پرانے زمینداروں سے کیا ہے۔ اور ان کی بات میں بھی دم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس پارٹی ایک ایسے زمیندار کی طرح ہے جس کی زمینیں کب کی ختم ہوچکی ہیں لیکن حویلی ابھی باقی ہے، اور اکڑ بھی۔ وہ یہ کہتا پھرتا ہے کہ یہ تمام زمینیں میری ہوا کرتی تھیں لیکن جیب میں حویلی کی مرمت کرانے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔ الفاظ تھوڑے مختلف ہو سکتے ہیں، مفہوم یہی ہے۔
یہ اس پارٹی کا حال ہے جو ستر کی دہائی میں خود ’روٹی کپڑا اور مکان‘ کے نعرے پر الیکشن جیتا کرتی تھی۔ اس وقت اندرا گاندھی وزیراعظم ہوا کرتی تھیں۔
اس دور میں دیواروں پر بس ایک ہی نعرا لکھا نظر آتا تھا۔ جیون کے بس تین نشان، روٹی کپڑا اور مکان۔ اس سے زیادہ نہ عوام کی ضرورت تھی اور نہ وہ مانگتے تھے۔

کانگریس پارٹی ’روٹی کپڑا اور مکان‘ کے نعرے پر الیکشن جیتا کرتی تھی۔ فوٹو اے ایف پی

نعروں کی خوبصورتی یہ ہوتی ہے کہ وہ آپ کو الیکشن جتوا بھی سکتے ہیں اور ہروا بھی سکتے ہیں۔ جب 2009 میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی اور وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی کی قیادت میں بی جے پی دوسری مدت کے لیے الیکشن لڑ رہی تھی تو کہتے ہیں کہ مسٹر اڈوانی نے ’شائننگ انڈیا‘ یا چمکتا ہندوستان کا نعرہ دیا تھا۔
رہنما سمجھتے رہے کہ ہندوستان واقعی چمک رہا ہے اور دیہات میں لوگ پوچھتے رہے کہ یہ لوگ کہیں باہر گھومنے گئے ہوئے ہیں کیا، ٹی وی پر شائننگ انڈیا کی جو تصاویر یہ دکھاتے ہیں ہم نے تو کہیں نہیں دیکھیں؟
باقی تاریخ تو آپ کو معلوم ہی ہے۔ بی جے پی ہار گئی، کانگریس دس سال اقتدار میں رہی اور لال کرشن اڈوانی کبھی وزیراعظم نہیں بن پائے۔
لیکن ان کے پسندیدہ رہنما نریندر مودی ضرور وزیراعظم بن گئے۔ یہ بات اور ہے کہ اس میں مسٹر اڈوانی کی مرضی اور خوشی شامل نہیں تھی۔ اور مسٹر مودی نے پھر نعروں کا گیم شروع کر دیا۔
اپنے پہلے الیکشن میں اتر پردیش میں ہی مسٹر مودی نے کہا تھا کہ ریاست میں اگر قبرستان بنتے ہیں تو شمشان کیوں نہیں؟ پوری تقریر کیا دہرائیں بس لب و لباب یہ تھا کہ جو مراعات مسلمانوں کو ملتی ہیں وہ ہندوؤں کو بھی ملنی چاہئیں۔ اگر عید پر مسلمانوں کو بجلی ملتی ہے تو ہندوؤں کے تہواروں پر انہیں بھی ملنی چاہیے۔ جسے بجلی والے گھر گھر جاکر پوچھتے ہوں کہ تم مسلمان ہو یا ہندو۔ کلمہ پڑھ کر سنا دیا تو بجلی بحال، نہیں سنا پائے تو پھر نصیب میں اندھیرا ہونا ہی تھا۔
بہت سے لوگ مانتے ہیں کہ آدتیہ ناتھ میں مسٹر مودی کی تمام خوبیاں موجود ہیں۔ وہ بھی مساوی حقوق اور سب کی ترقی میں یقین رکھتے ہیں اور آگے چل کر ملک کے وزیراعظم بن سکتے ہیں۔

نریندر مودی ہر جلسے میں کانگریس ’مکت‘ بھارت کی بات کرتے تھے۔ فوٹو اے ایف پی

اسی ہفتے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت آنے سے پہلے سارا اناج وہ لوگ ہضم کر جاتے تھے جو ’ابا جان‘ کہتے ہیں۔۔۔ جب تک ایک خاص طبقے کو خوش کرنے کی پالیسی رہی، ملک کو دہشتگردی، فسادات، بدعنوانی، نراجیت اور نا انصافی جیسے سنگین مسائل کا سامنا رہا۔
خیر، اچھی خبر یہ ہے کہ پچھلے چار پانچ برسوں میں یہ تمام مسائل حل ہو گئے ہیں۔ ایسا کون ہوگا جو کہے کہ ایک خاص مراعات یافتہ طبقے کو سرکاری راشن ملتا رہے اور دوسرے مذاہب پر عمل کرنے والے بے چارے غریب بھوکے بیٹھے رہیں۔ اس لیے صرف دو ہی باتیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو واقعی مساوات کا دور آگیا ہے یا پھر الیکشن ہونے والے ہیں۔
بھائی، الیکشن ہی ہونے والے ہیں۔ اب سال بھر تک ہمیں پھر کچھ پرانی مساجد کی اصل تاریخ پڑھائی جائے گی کچھ نئے رام مندر کے خواب دکھائے جائیں گے۔ کہیں گوشت کی دکانوں پر پابندی لگائی جائے گی تو کہیں شہروں کے نام بدلے جائیں گے۔
لیکن زبان چونکہ منہہ کے اندر ہوتی ہے، اس لیے اسے پکڑنا آسان نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کیا پورے دور اقتدار میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کی بنیاد پر الیکشن جیتا جاسکے جو پھر ابا جان کی مدد لینا پڑ رہی ہے۔ سچ یہ ہے کہ کچھ کام تو سب حکومتیں کرتی ہیں۔ لیکن الیکشن جیتنے کے آزمودہ فارمولے کے کام سے براہ راست تعلق کم ہی ہے۔ اس لیے اب سے لے کر الیکشن تک ابا جان اور ان کی دکان کا ذکر ہوتا رہے تو زیادہ حیران مت ہوئیے گا۔
یہ بس شروعات ہے۔ لیکن کہیں انجام پھر وہ نہ ہو جو شائننگ انڈیا کا ہوا تھا۔

شیئر: