Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شیخ حسینہ کی سزائے موت کیخلاف احتجاج کی کال کے باجود بنگلہ دیش میں سکون اور خاموشی

معزول وزیراعظم شیخ حسینہ کے سابقہ حکمران جماعت کی جانب سے ملک گیر ہڑتال کی اپیل کے باوجود بنگلہ دیش کا دارالحکومت اور بڑے شہر منگل کے روز پُرسکون رہے۔
شیخ حسینہ واجد کو پیر کو  انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے
انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمے میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
تاہم سزا سائے جانے کے ایک دن بعد حسینہ واجد کی جماعت کی جانب سے احجاج کی کال کے باوجود ملک سکون اور خاموشی رہی۔
انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے شیخ حسینہ اور سابق وزیرداخلہ اسد الزمان خان کو گزشتہ سال مظاہرین کے خلاف طاقت کے مہلک استعمال میں ملوث ہونے پر عدم موجودگی میں سزائے موت سنائی تھی۔
شیخ حسینہ کی سابقہ حکمران جماعت عوامی لیگ نے پیر کو عدالتی کارروائی کو مسترد کرتے ہوئے اسے ’کینگرو کورٹ‘ قرار دیا اور اگلے دن ملک گیر شٹ ڈاؤن کی اپیل کی تھی۔
پیر کی رات گئے تک حسینہ کے مخالفین کی پولیس اور فوج کے ساتھ جھڑپیں جاری رہیں اور انہوں نے بنگلہ دیش کے بانی رہنما اور حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمان کے گھر کو مسمار کرنے کے لیے کھدائی مشینیں استعمال کرنے کی کوشش کی۔
مقامی میڈیا کے مطابق سابق صدر اور عوامی لیگ کے سینئر رہنما عبد الحمید کے گھر کو بھی ضلع کِشورگنج میں توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا گیا۔
لیکن منگل کو نہ ٹرانسپورٹ اور دیگر سروسز بند ہوئیں، نہ دکانیں اور نہ سکول۔
ڈھاکہ کے ایک تاجر محمد سائیکوت حسین نے کہا کہ ’یہاں قانون کی حقیقی حکمرانی نہیں اور  میں اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جو لوگ پہلے ملک چلا رہے تھے انہوں نے قانون کو اپنی مرضی سے ڈھالا اور جو لوگ اب چلا رہے ہیں وہ بھی یہی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا۔
’ہماری اگلی نسل اسی ماحول میں پروان چڑھ رہی ہے۔ ان کے پاس نہ کوئی مقصد ہے نہ مستقبل۔ میں بہت پریشان ہوں کہ وہ آنے والے دنوں میں کہاں جائیں گے اور کیا کریں گے۔‘
78  سالہ حسینہ واجد کو پیر کو انسانیت کے خلاف پانچ جرائم میں قصوروار ٹھہرایا گیا۔ انہیں اشتعال انگیز بیانات دینے اور طلبہ مظاہرین کو ہیلی کاپٹر، ڈرون اور مہلک ہتھیاروں سے ختم کرنے کا حکم دینے پر عمر قید کی سزا بھی سنائی گئی۔
سابق پولیس سربراہ نے جرم قبول کر کے شیضخ حسینہ کے خلاف ریاستی گواہ بننے کے بعد پانچ سال قید کی سزا پائی۔
گذشتہ سال جولائی اور اگست میں بنگلہ دیش میں کئی ہفتوں تک طلبہ کی قیادت میں احتجاجی تحریک چلتی رہی۔ مظاہرین نے سرکاری نوکریوں میں کوٹہ نظام پر ناراضی کا اظہار کیا جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا تھا کہ یہ حسینہ کی جماعت سے تعلق رکھنے والوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ عبوری حکومت کے مطابق 800 سے زیادہ افراد ہلاک اور تقریباً 14 ہزار زخمی ہوئے۔ اقوامِ متحدہ نے فروری میں اندازہ لگایا کہ ہلاکتوں کی تعداد 1,400 تک  ہے۔
یہ بغاوت 5 اگست 2024 کو شیخ حسینہ کی 15 سالہ حکومت کے خاتمے کا باعث بنی۔ شیخ حسینہ اور وزیر داخلہ انڈیا فرار ہوگئے، جس نے انہیں واپس کرنے سے انکار کر دیا ہے، اس لیے ان کے لیے سزاؤں پر عمل درآمد کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔
حسینہ اپیل تب ہی کرسکتی ہیں جب وہ سزا سنائے جانے کے 30 دن کے اندر خود کو سرنڈر کریں یا گرفتاری دے دیں۔

 

شیئر: