Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

متحدہ عرب امارات میں ورکنگ ویک میں تبدیلی کی قیاس آرائیاں؟

متحدہ عرب امارات میں پیر تا جمعہ ورکنگ ویک میں تبدیلی  پر غور کرنے کے بارے میں مسلسل  گفتگو نے عالمی دلچسپی کو نئے سرے سے متحرک کردیا ہے۔
 برطانیہ کے سب سے قدیم روزنامہ ٹائمز نے اس مجوزہ تبدیلی کے بارے میں ایک کہانی شائع کی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق  ٹائمز نے کہا ہے کہ نئے ورک ویک کو متحدہ عرب امارات کو ’عالمی معیشت کے مطابق‘ لانا چاہیے کیونکہ خلیجی ریاست نے حال ہی میں اصلاحات کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے جس میں بنیادی طور پر اس کی اکثریتی تارکین وطن کی آبادی کو متاثرہوئی ہے۔
متحدہ عرب امارات کی تقریباً 10 ملین آبادی کا کم از کم 80 فیصد غیر ملکی کارکنوں پر مشتمل ہے جن میں زیادہ تر جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے ہیں۔
دوسری جانب متحدہ عرب امارات کی حکومت نے ٹائمز کی تازہ ترین قیاس آرائیوں کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے حالانکہ یہ موضوع مہینوں سے غیر ملکی کمیونیٹیز میں گردش کر رہا ہے۔
متحدہ عرب امارات کی سرکاری نیوز ایجنسی وام نے اس سال کے شروع میں ایک ان دعوؤں کی تردید کے لیے ایک بیان جاری کیا تھا۔
وام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد جلال نے ایک بیان میں کہا کہ ’وہ خبر جو سوشل میڈیا پر پھیل رہی ہے کہ [حکومت] ہفتے کے آخر میں کچھ تبدیلیاں کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی وہ جعلی ہے۔ حکومت کی طرف سے ایسی کوئی خبر جاری نہیں کی گئی ہے اور لوگوں کو چاہیے کہ وہ ایسی غلط معلومات پھیلانا بند کریں کیونکہ یہ رہائشیوں کو گمراہ کر رہی ہے۔‘
جمعہ مسلمانوں کا مقدس دن ہے جو نماز اور خاندانی اجتماعات ہوتے ہیں اور اگر پیر تا جمعہ ورکنگ اختیار کیا جائے تو ممکنہ طور پر شیڈول سے متصادم ہو سکتا ہے ۔ ایسے خیالات ہیں کہ جمعہ آدھا دن یا ’گھر سے کام کا دن‘ بن سکتا ہے۔
متحدہ عرب امارات نے مئی 2006 میں اپنے اختتام ہفتہ کو جمعرات جمعہ سے جمعہ ہفتہ تک تبدیل کر دیا تھا  جو کہ اسی سال ستمبر میں نافذ ہوا۔
تمام خلیجی ممالک نے بعد میں تبدیلی کی جبکہ سعودی عرب نے 2013 میں اپنے ویک اینڈز کو تبدیل کیا تھا۔

شیئر: