پاکستان کے صوبہ پنجاب میں کنزیومر اتھارٹیز رواں ماہ سے فعال ہو گئی ہیں اور صارفین کے حقوق کی خلاف ورزی پر دکان داروں پر جُرمانے عائد کیے جا رہے ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں صارفین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق آنے والے کیسز کی سماعت بھی ڈسٹرکٹ اور سیشن ججز کر رہے ہیں۔
دراصل پنجاب حکومت نے رواں سال کنزیومر پروٹیکشن قانون میں چند اہم تبدیلیاں کی ہیں، جن کے تحت خصوصی کنزیومر کورٹس کا خاتمہ کر کے سِول ججوں کو صارفین کے مقدمات کی سماعت کا اختیار دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
پنجاب میں خصوصی عدالتیں، اوورسیز مقدمہ کیسے دائر کر سکتے ہیں؟Node ID: 897219
پنجاب بھر میں کنزیومر پروٹیکشن کونسلز کو مزید مضبوط بنانے کے علاوہ ان کا دائرہ کار بھی بڑھایا گیا ہے اور انہیں مختلف سیکشنز کے تحت صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے کے فرائض سونپے گئے ہیں۔
اس رپورٹ میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ پنجاب میں صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کنزیومر کونسلز اب کس طرح کام کر رہی ہیں؟
کنزیومر کونسلز صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کون سے اقدامات کر سکتی ہیں، اور سیشن جج صارفین کے کیسز کس طرح سُن رہے ہیں؟
حکومت پنجاب نے رواں سال کے دوران ہی یہ فیصلہ کیا کہ صارفین کے حقوق کے لیے بنائی گئی خصوصی کنزیومر کورٹس کو ختم کیا جائے گا اور ان میں زیرسماعت تمام کیسز کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس میں منتقل کیا جائے گا۔
حکومت نے اپنے اس فیصلے کا یہ جواز فراہم کیا کہ پنجاب بھر میں خصوصی کنزیومر کورٹس چلانے پر بھی اخراجات آتے ہیں، جب کہ ان مقدمات کی سماعت سیشن ججز بھی کر سکتے ہیں۔ اس لیے عبوری طور پر کورٹس کے سٹاف کو دوسری عدالتوں میں منتقل کر دیا گیا۔
دوسری جانب حکومت نے کنزیومر پروٹیکشن کونسلز کو مزید مضبوط بنایا اور انہیں پنجاب کے 35 اضلاع تک پھیلایا۔
ان کونسلز کے دفاتر ڈپٹی کمشنر دفاتر میں قائم کیے گئے، اور ہر ضلعے میں موجود اسسٹنٹ کمشنرز اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیگل کو صارفین کے مسائل سننے اور کارروائی کرنے کا اختیار دیا گیا۔
اردو نیوز نے اس حوالے سے مزید جاننے کے لیے فوکل پرسن میڈیا اینڈ اویئرنس ڈسٹرکٹ کنزیومر پروٹیکشن کونسل راولپنڈی ادریس رندھاوا سے رابطہ کیا۔

انہوں نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ ’بنیادی طور پر پنجاب حکومت نے کنزیومر ایکٹ 2025 میں ترامیم کرتے ہوئے ہر ضلعے میں موجود اسسٹنٹ کمشنرز اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیگل کو کنزیومر پروٹیکشن اتھارٹی کے فرائض سونپے ہیں۔‘
’یہ اہلکار صارفین کی شکایات سننے اور کنزیومر رائٹس کی خلاف ورزی پر خود کارروائی کرنے کے مجاز ہیں، اور وہ ایک ہزار روپے سے لے کر ایک لاکھ روپے تک کا جُرمانہ بھی عائد کر سکتے ہیں۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ اسسٹنٹ کمشنر اور اے ڈی لیگل کنزیومر ایکٹ کی چار سیکشنز 11، 16، 18 اور 19 کے تحت کارروائی کر سکتے ہیں۔
ادریس رندھاوا نے کہا کہ ’سیکشن 11 کے تحت کسی بھی چیز کی ایکسپائری ڈیٹ اور اجرا کی تاریخ اس پر واضح طور پر درج ہونی چاہیے۔‘
’اسی طرح سیکشن 16 کے مطابق سروس فراہم کرنے والے کے لیے اپنی قابلیت اور تجربے کی تفصیل فراہم کرنا لازمی ہے، مثال کے طور پر اگر کوئی ڈاکٹر ہے تو اسے اپنی اسناد اور کلینک کے قیام کی معلومات دینا ہوں گی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’سیکشن 18 میں ہر پروڈکٹ کی قیمت واضح طور پر درج ہونی چاہیے، اور سیکشن 19 کے تحت ہر دکان دار پر رسید جاری کرنا لازم ہے، جس میں واضح ہو کہ یہ پروڈکٹ کس کو اور کس قیمت پر بیچی گئی۔‘

ان چار سیکشنز کے تحت پنجاب بھر میں اسسٹنٹ کمشنرز اور اسسٹنٹ ڈائریکٹرز لیگل خود سے جُرمانہ عائد کر سکتے ہیں اور شکایت آنے پر کارروائی کرنے کے پابند ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ صارفین کنزیومر کونسلز سے کیسے رجوع کر سکتے ہیں، تو انہوں نے بتایا کہ طریقہ کار وہی پرانا ہے یعنی ہر ضلعے میں موجود دفاتر، آن لائن، موبائل نمبرز اور سوشل میڈیا پیجز کے ذریعے شکایت درج کروائی جا سکتی ہے۔
اسی طرح پنجاب بھر کے اضلاع میں موجود سیشن اور ایڈیشنل سیشن ججز کے دفاتر میں بھی شہری جا کر درخواست دے سکتے ہیں۔
اردو نیوز نے پنجاب حکومت کے ان اقدامات پر گورننس اور کنزیومر افیئرز کے ماہرین سے بھی بات کی۔
اسلام آباد میں مقیم گورننس ماہر محمد اسد الرحمان نے اس امر کو خوش آئند قرار دیا ہے کہ حکومت صارفین کے حقوق کے حوالے سے اقدامات کر رہی ہے۔
انہوں نے اس پہلو کو سراہا کہ آن لائن خریداری میں دھوکہ دہی کے معاملات بھی اب شامل ہوں گے، تاہم انہوں نے کہا کہ یہ واضح نہیں کہ این سی سی آئی اے کو آن لائن خریداری میں صارفین کے تحفظ کے اختیارات دیے گئے ہیں یا ان کنزیومر کونسلز کو، یہ واضح نہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’حکومت خصوصی کنزیومر کورٹس ختم کرنے کی یہ وجہ بتاتی ہے کہ ان میں کیسز کافی حد تک زیر التوا تھے اور وہ موثر ثابت نہیں ہو رہی تھیں، صرف اخراجات ہو رہے تھے۔‘
اسد الرحمان نے کہا کہ ’حکومت کو چاہیے کہ فزیکل شاپنگ کے ساتھ ساتھ آن لائن خریداری کے لیے بھی واضح حکمت عملی بنائے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے واضح پالیسی بنانا اور اس پر مؤثر عمل درآمد کرنا ضروری ہے، اور صارفین کے ڈیٹا کی حفاظت کو یقینی بنایا جانا چاہیے تاکہ ان کی معلومات محفوظ رہیں۔‘
دوسری جانب ماہر معیشت پروفیسر ڈاکٹر اکرام الحق مختلف رائے رکھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ عدلیہ کا کام انتظامیہ نہیں کر سکتی۔
ان کے مطابق ’حکومت نے خصوصی کنزیومر کورٹس ختم کرنے کے بعد انتظامیہ کو ایسے اختیارات دے دیے ہیں جو بنیادی طور پر عدلیہ کے کام ہیں۔‘
وہ سمجھتے ہیں کہ بنیادی طور پر برصغیر میں برطانوی راج کے دور میں انتظامیہ اور افسران کو اس طرح کے اختیارات دیے گئے تھے تاکہ وہ معاملات پر کنٹرول کر سکیں، لیکن آج اس طرح کے اختیارات انتظامیہ کے پاس ہونا سمجھ میں نہیں آتا۔
ان کا کہنا تھا کہ صارفین کے حقوق کا تحفظ ضروری ہے، لیکن فیصلے اور سزائیں دینے کا اختیار عدلیہ کے پاس ہونا چاہیے، اور انتظامیہ صرف آگاہی اور نگرانی کے اقدامات کرے۔












