Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جمائما گولڈ سمتھ کو لندن میں ’پاکستانی سٹائل رکشے‘ کی تلاش

برطانوی شاہی جوڑے کے دورہ پاکستان کے موقع پر پاکستانی سٹائل کا رکشہ عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز رہا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
وزیراعظم عمران خان کی سابق اہلیہ جمائمہ گولڈ سمتھ کو اپنے آبائی ملک برطانیہ میں پاکستانی سٹائل کے رکشے کی ضرورت پڑی تو انہوں نے وہاں مقیم پاکستانیوں سے مدد لینے کے لیے ٹوئٹر کا رخ کیا۔
فلمسازی سے وابستہ جمائمہ گولڈ سمتھ نے اپنی ٹویٹ میں برٹش پاکستانیوں کا مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہمیں فلمبندی کے لیے آئندہ ہفتے لندن میں پاکستانی سٹائل رکشے کی تلاش ہے۔ کوئی کسی کو جانتا ہے جس کے پاس رکشہ ہو؟‘

جواب میں کچھ صارفین نے سنجیدگی سے ان کی مدد کا ارادہ کیا تو کچھ نے اسے مزاح کا موقع بنا ڈالا۔
کچھ عرصہ قبل دورہ پاکستان پر آنے والے برطانوی شاہی جوڑے پرنس ولیم اور شہزادی کیٹ مڈلٹن کی رکشے کے ساتھ تصاویر شیئر کرتے ہوئے ایک صارف نے جمائمہ گولڈ سمتھ کو مسئلہ حل کر سکنے کی مشروط خبر سنائی۔ خرم ظہور نامی ٹویپ نے شرط عائد کی وہ بتائے گئے وقت پر رکشہ فراہم کر سکتے ہیں البتہ انہیں رکشہ ڈرائیور کا رول دیا جائے۔

مسئلہ حل ہوتا دیکھ کر جمائمہ گولڈ سمتھ نے ان کی شرط ماننے کا اقرار کیا تو ’ڈی ایم‘ (ڈائریکٹ میسیج) میں تفصیل شیئر کرنے کا بھی کہا۔
احتشام الحق نامی صارف نے جوابی ٹویٹ میں ساؤتھ ہال اور برمنگھم میں پاکستانی سٹائل رکشے کی موجودگی کی اطلاع دی تو واضح ہوا کہ منفرد ڈیزائن کے حامل پاکستانی رکشے برطانیہ میں خاصے مقامات پر موجود ہیں۔

کچھ عرصہ قبل کراچی کے پبلک ٹرانسپورٹ روٹس پر چلنے والی ایک منی بس ڈبلیو 11 اور معروف پاکستانی ٹرک آرٹ سے مزین ایک بیڈفورڈ ٹرک ی برطانیہ میں موجودگی کی کچھ تصاویر بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی جاتی رہی ہیں۔
پاکستانی کرکٹر شاہد آفریدی کی فاؤنڈیشن سے تعلق رکھنے والی صائمہ خان نے ساؤتھ ہال میں پاکستانی و چینی کھانے فراہم کرنے والے ایک ریستوران میں رکشے کی موجودگی کی اطلاع دی تو جواب میں جمائما خان کا کہنا تھا کہ انہیں ’لاہور سٹائل کا سجا ہوا‘ رکشہ درکار ہے۔

پاکستان کے بڑے شہروں کراچی، لاہور، حیدرآباد، فیصل آباد، راولپنڈی، پشاور سمیت ملک کے بیشتر حصوں میں سستی سواری کے طور پر استعمال ہونے والے رکشے وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ ٹریفک قوانین اور لائن ڈسپلن کی پابندی کا خیال کیے بغیر ملک کے بڑے شہروں کی سڑکوں پر فراٹے بھرتے ٹو سٹروک انجن کے حامل رکشوں کو فور سٹروک اور قدرے کم شور کرنے والے رکشوں نے بدلا تھا۔ چنگ چی کہلانے والے موٹرسائیکل رکشے ہوں یا کراچی کے کچھ علاقوں میں چلنے والے فور سیٹر، رکشوں کی مختلف اقسام مقامی آبادی کے لیے اہم سفری ذریعہ تسلیم کی جاتی ہے۔
پاکستان میں رکشے صرف مقامی سطح پر سفری سہولت ہی نہیں رہے بلکہ اب یہ ملک کے لیے زرمبادلہ کے حصول کا ذریعہ بھی بن گئے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین یہ اطلاع دے چکے ہیں کہ ایک پاکستانی رکشہ ساز کمپنی کو افریقی ملک ایتھوپیا سے 170 رکشوں کا آرڈر موصول ہوا ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستانی مینوفیکچررز افریقی منڈیوں پر توجہ دیں تو وہاں سے بہتر کاروباری فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

شیئر: