Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میری بدنامی والی بات یہی تھی کہ میں منتخب نہیں ہوں: زلفی بخاری

وزیرِاعظم عمران خان کے سابق معاونِ خصوصی زلفی بخاری نے کہا ہے کہ ’چونکہ ان کے منتخب نہ ہونے پر اعتراض کیا جاتا رہا ہے لہٰذا اس اعتراض کو ختم کرنے کے لیے انہوں نے آئندہ الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’وہ کابینہ یا کابینہ سے باہر کسی بھی حیثیت میں ملک کی خدمت کرنے کے لیے تیار ہیں،‘ تاہم انہوں نے دوبارہ کابینہ کا حصہ بننے کا معاملہ وزیراعظم پر چھوڑا ہوا ہے اور خود کو وہ اپنے حلقے کے کاموں میں مصروف رکھے ہوئے ہیں تاکہ آئندہ انتخاب میں کامیابی کے بعد وہ بھرپور طریقے سے واپس آسکیں۔ 
وفاقی کابینہ سے علیحدگی کے بعد  پہلی بار وزیراعظم سے تعلقات اور اپنے مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’پانچ سال بعد میں سیاسی کیریئر کے اگلے پیمانے پر ہوں گا اور وہ (پیمانہ) ہوگا ایک منتخب رکن اسمبلی۔‘   
انہوں نے کہا کہ ’اب تک ان تین برسوں میں اگر میرے خلاف کوئی صحیح چیز تھی تو وہ یہی تھی کہ میں منتخب نہیں تھا۔ وہ ایک حقیقت ہے، اگر سونے سے پہلے میں یہ سوچوں کہ میرے خلاف بدنامی والی کون سی چیز صحیح ہے، وہ یہ ہے کہ ٹھیک ہے کہ شاید میں منتخب نہیں ہوں، تو اس لیے لوگ آپ کو آسان لینا شروع کر دیتے ہیں۔‘ 
انہوں نے ان اطلاعات کی تردید کی کہ ان کے وزیراعظم کے ساتھ اختلافات پیدا ہو گئے ہیں اور اس وجہ سے ان کی کابینہ میں واپسی نہیں ہو رہی۔ 
زلفی بخاری نے کہا کہ ’رنگ روڈ سکینڈل میں ان کا نام کلیئر ہوئے ابھی صرف ماہ ڈیڑھ ماہ ہوا ہے اور یہ کوئی بڑی مدت نہیں ہے کہ اس دوران وزیراعظم نے ان کی کابینہ میں شمولیت کا دوبارہ فیصلہ نہیں کیا۔‘ 
وزیراعظم سے دُوری کے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے زلفی بخاری نے کہا کہ ’عمران خان کی حیثیت ان کے لیے ایک بڑے بھائی اور سرپرست کی  ہے۔‘
’وزیراعظم عمران خان اس ملک کے وزیراعظم ہیں، اس کے باوجود میرے لیے وہ ایک بڑے بھائی ہیں۔ وہ ایک انسپائریشن (متاثر کن) ہیں، ایک اتالیق ہیں، ہر لحاظ سے۔ میری اور وزیراعظم کی ہر روز نہیں تو ہر دوسرے روز کوئی نہ کوئی گفتگو کسی نہ کسی معاملے پر ہوتی رہتی ہے۔ اور میں سو فیصد مطمئن ہوں ہر چیز میں، اور کوئی ناراضی نہیں ہے۔‘ 
تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ گذشتہ دو ماہ میں ان کی وزیراعظم سے ملاقات نہیں ہوئی اور اس کی وجہ انہوں نے مصروفیت قرار دی۔  
وزارت سے اپنے استعفے کے بارے میں زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں انہوں نے ’شاید جلد بازی سے کام لیا تھا۔‘  
’میں یہ نہیں کہہ رہا، جو سمجھدار لوگ ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ تم نے بڑا جذباتی فیصلی کیا، لیکن مجھے وہ کرنا تھا جو مجھے صحیح لگا۔‘  

زلفی بخاری نے کہا کہ ’انہوں نے استعفیٰ میڈیا پر خبریں چلنے سے پہلے ہی دے دیا تھا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

زلفی بخاری نے کہا کہ ’انہوں نے استعفیٰ میڈیا پر خبریں چلنے سے پہلے ہی دے دیا تھا۔‘
’میں نے اس وقت استعفیٰ نہیں دیا جب آپ کو پتا چلا۔ میں نے اس سے بھی دو ہفتے پہلے استعفیٰ دے دیا تھا، لیکن کیونکہ اس وقت میری وزیراعظم سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ میں دبئی چلا گیا تھا، فیملی کی چھٹیاں تھیں عید کی۔ میں انکوائری رپورٹ کا انتظار کر رہا تھا، لیکن جس دن میرا نام میڈیا پر بھی چلا ہے میں نے اسی وقت وزیراعظم کو استعفیٰ بھیج دیا تھا کہ ٹینشن نہ لیں، ایزی رہیں، جب بھی استعمال کرنا ہو، کر لیں۔‘  
’ جب میرا نام انکوائری رپورٹ میں بالواسطہ طور پر لیا گیا پھر میں دوسرے دن جب دبئی سے واپس آیا پھر میں وزیراعظم کے پاس گیا اور میں نے بولا کہ اب تو اس نے میرا نام لے لیا ہے۔‘   
ان کا کہنا تھا کہ انہیں وزارت سے استعفیٰ دینے کے بارے میں وزیراعظم یا کسی اور نے نہیں بلکہ رنگ روڈ سکینڈل کی تحقیقاتی رپورٹ کی ایک لائن نے مجبور کیا تھا۔  
 ’جو رپورٹ تھی 33 صفحوں کی، اس میں ایک لائن تھی، جس پر میں مجبور تھا استعفیٰ دینے پر، وہ یہ تھا کہ شاید اس نے رنگ روڈ پر اپنا اثرورسوخ استعمال کیا، کیونکہ میری امی کے فرسٹ کزن کی زمین ہے وہاں، ان کی وہ زمین وہاں دو سو، تین سو سال سے ہے۔‘    
’لیکن وزارت کے چلے جانے کے بعد جب میں اپنے حلقے میں گیا تو وہاں پر مجھے احساس ہوا کہ تین سال گزر گئے ہیں۔ جب میں نے سیاست میں حصہ لیا تو کابینہ میں بھی میں نے لوگوں سے وعدہ کیا ہوا تھا کہ میں اٹک پر زیادہ توجہ دوں گا، اس طریقے سے میں نہیں کر پایا، تو شاید یہ ایک طریقہ تھا، خدا نے روکنے کا اور دکھانے کا کہ ایک وعدہ کیا ہوا تھا، اس پر توجہ دو۔ تو اب میری وہاں زیادہ توجہ ہے، تو اس چیز میں بھی میں سمجھتا ہوں کہ ایک بڑا اطمینان ہے۔‘    
زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ ’وہ اب بھی پس منظر میں رہ کر اوورسیز پاکستانیوں اور سیاحت کے لیے کام کر رہے ہیں،‘ تاہم ان کے وزارت چھوڑنے کے بعد کچھ اہم سرکاری کاموں پر وزارت کی کارکردگی سست ہوئی ہے۔  

زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ ’بلاول بھٹو زرداری نے قومی سطح کا رہنما بننے کا موقع ضائع کر دیا‘ (فائل فوٹو: زلفی بخاری ٹوئٹر)

’انچارج وزیر تو وزیراعظم ہیں ان کی پلیٹ ہمیشہ فل رہتی ہے (بہت مصروف رہتے ہیں)، ظاہری بات ہے وہ وزیراعظم ہیں، اور ایمپلائیز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوٹ (ای او بی آئی) میں ابھی کوئی چیئرمین نہیں ہے، اوپر وزیر کوئی نہیں ہے، سیکریٹری صاحب نسبتاً نئے ہیں تو وہ خود سیکھ رہے ہیں کہ صحیح کیا ویژن تھا، اور ایک ڈائریکشن بھی ہوتی ہے، حکومت کا ایک ویژن ہوتا ہے۔ وہ شاید موجود نہ ہو۔ تین چار ماہ ہوگئے ہیں، تو شاید وہ ویژن صحیح طریقے سے نہیں دیکھ پا رہے ہیں، ہو سکتا ہے، تو ظاہری بات ہے کہ ایک کمی تو ہوتی ہے۔‘
’کئی منصوبے ویسے کے ویسے ہی چل رہے ہیں۔ کئی منصوبے آغاز میں تھے جو شاید سست ہو گئے ہیں، انصاف کارڈز کے، ای او بی آئی میں، جو براہ راست اوورسیز کے لیے نہیں تھے، لیکن ہم چاہ رہے تھے کہ ہم اوورسیز کو ای او بی آئی کے اندر لے کر آئیں۔ جو ہمارے مزدور باہر جاتے ہیں، کام کے لیے ان کو بھی پینشن کا ایک ریلیف ملے۔‘  
 پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ان کے پاس قومی سطح کا رہنما بننے کا موقع تھا جو انہوں نے ضائع کر دیا۔‘

شیئر: