Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان حکومت میں ملا برادر اور حقانی گروپ آمنے سامنے کیوں؟

ملا عبالغنی برادر مغرب کے ساتھ مذاکرات میں ایک اہم کھلاڑی رہے ہیں جو افغانستان سے امریکی انخلا کا باعث بنا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کو فتح کرنے کے بعد طالبان کو اپنی صفوں میں امن برقرار رکھنے اور تباہی کے دہانے پر پہنچے ملک کو چلانے جیسے گھمبیر مسائل کا سامنا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق باہر سے سخت گیر تمام نظریاتی اور تزویراتی معاملات میں یکساں اور متحد دکھائی دے سکتے ہیں لیکن کسی بھی دوسری بڑی سیاسی تنظیم کی طرح کئی دہائیوں پرانے اسلام پسند گروپ کی اپنی تقسیم، دشمنی، وفاداریاں اور دھڑے ہیں۔
امریکہ کی زیر قیادت غیر ملکی فوجیوں کو شکست دینے کی 20 سالہ کوشش کے دوران بڑے پیمانے پر اختلافات کو قابو میں رکھا گیا اور کابل حکومت کو بڑے پیمانے پر بدعنوان قرار دیا گیا۔
اس مشترکہ دشمن کی شکست کے ساتھ، صرف چند ہفتوں میں طالبان کی حکمرانی میں گروپ میں دراڑیں کھل کر دکھائی دیتی ہیں۔

آپسی اختلافات

پیر کو یہ افواہیں کہ صدارتی محل میں حریف دھڑوں کے درمیان فائرنگ کے نتیجے میں شریک بانی ہلاک ہو گئے پر نائب سربراہ عبدالغنی برادر ایک آڈیو پیغام جاری کرنے پر مجبور ہو گئے جس میں کہا گیا کہ وہ زندہ ہیں۔

امریکہ نے سراج الدین حقانی کی گرفتاری پر ایک کروڑ ڈالر انعام رکھا ہوا ہے (فائل فوٹو: ایف بی آئی)

آسٹریلوی یونیورسٹی لا ٹروب کے ماہر افغان امور نعمت اللہ ابراہیمی کے مطابق اس سے قبل عبوری حکومت کی تشکیل نے گروپ کی سیاسی کشیدگی کو عیاں کر دیا اور شاید مستقبل کی مشکلات کے بیچ بھی بو دیے۔
طالبان کے پرانے رہنما جو ان کی تنظیم کی روحانی جائے پیدائش قندھار سے تعلق رکھتے ہیں، جن میں ملا برادر بھی شامل ہیں اور حقانی گروپ کے درمیان بڑے عہدے تقسیم کیے گئے۔
سنہ 1990 کی دہائی میں طالبان کے پہلے دور حکومت میں قندھار کا دھڑا غالب تھا لیکن اب گروپ کی کئی حالیہ فوجی کامیابیوں کا سہرا حقانیوں کے سر ہے۔
اس حوالے سے نعمت اللہ ابراہیمی کا کہنا ہے کہ 'ہمیں واقعی حقانیوں کی طاقت کو کم نہیں سمجھنا چاہیے۔'
'وہ عسکری طور پر اس تحریک کا زیادہ بہتر حصہ رہے ہیں، القاعدہ اور پاکستان کے حساس اداروں کے ساتھ اہم روابط کو برقرار رکھتے ہیں، بلکہ افغانستان میں ان کا اپنا مخصوص پاور بیس بھی ہے۔'
خاندان کے سربراہ سراج الدین حقانی جنہیں امریکہ نے دہشت گرد قرار دیا اور ان کی گرفتاری کے لیے ایک کروڑ ڈالر کا انعام رکھا تھا، نے وزارت داخلہ کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، جو طالبان کی حکمرانی کے انداز کا تعین کرے گا۔
انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے سینیئر کنسلٹنٹ گراہم سمتھ کے مطابق وہ اس عہدے کے لیے 'فطری انتخاب' ہیں۔
'انہوں نے طالبان کے انتہائی لڑاکا یونٹس کو منظم کیا۔'

طالبان کی کئی حالیہ فوجی کامیابیوں کا سہرا حقانیوں کے سر ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

تنازع کی وجہ
تاہم حقانی کی تقرری نے مغربی حکومتوں کے لیے طالبان حکومت کو تسلیم کرنا یا امریکہ میں منجمد افغانستان کے مرکزی بینک کے ذخائر کو جاری کرنا اور بھی مشکل بنا دیا ہے۔
اس رقم کو حاصل کرنے میں ناکامی اور غیر ملکی قبولیت کو ملا برادر کے لیے ایک دھچکہ سمجھا جا سکتا ہے، جو مغرب کے ساتھ مذاکرات میں ایک اہم کھلاڑی رہے ہیں جو افغانستان سے امریکی انخلا کا باعث بنا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دھڑوں کے درمیان دشمنی افغانستان کے پڑوسیوں کے ساتھ مزید مسائل پیدا کر سکتی ہے۔

شیئر: