Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا شائقین کو پھر سے 12 سال طویل انتظار کرنا پڑے گا؟

جمعے کو راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم 18 سال بعد نیوزی لینڈ کی میزبانی کے لیے تیار تھا۔ صبح سے ہی راولپنڈی اور اسلام آباد کا موسم بھی کرکٹ کے لیے معقول تھا اور توقع کی جا رہی تھی کہ شام ہوتے ہی تماشائیوں کی بڑی تعداد نیوزی لینڈ کے کھلاڑیوں کو پاکستان کے میدان میں کھیلتا ہوئے دیکھے گی، لیکن شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔  
میچ کا آغاز دوپہر ڈھائی بجے ہونا تھا لیکن دن 12 بجے سے ہی تماشائی مختلف ٹولیوں کی شکل میں سٹیڈیم کی طرف رواں دواں تھے۔ ان شائقین کرکٹ نے پاکستان کے ساتھ نیوزی لینڈ کے پرچم بھی ہاتھوں میں تھام رکھے تھے اور نیوزی لینڈ زندہ باد کے نعرے بھی بلند کر رہے تھے۔
اور کرتے بھی کیوں نہ! بالآخر پاکستان کے میدانوں پر چھائی مایوسی جو چھٹنے جا رہی تھی۔
لیکن صورتحال اس وقت یکدم تبدیل ہوگئی جب سیکیورٹی اہلکاروں نے گراؤنڈ کلیریئنس کا بتاتے ہوئے تماشائیوں کو سٹیڈیم میں داخل ہونے سے روک دیا۔  
میڈیا باکس میں بین الاقوامی اور مقامی میڈیا کے نمائندے بھی میچ کوریج کی تیاریاں کرتے نظر آرہے تھے لیکن براڈکاسٹرز کچھ سست نظر  دکھائی دے رہے تھے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ گزشتہ تین روز سے راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں پریکٹس کرنے والی ٹیم سیکیورٹی خدشات کے باعث سٹیڈیم آنے سے ہی انکار کر دے گی۔
دن دو بجے ٹاس کا ٹائم مقرر تھا لیکن جب ٹاس سے آدھا گھنٹا قبل دونوں ٹیمیں میدان میں نہیں پہنچیں تو میڈیا باکس میں کھل بلی مچ گئی اور وہاں موجود پاکستان کرکٹ بورڈ حکام بھی حیران و پریشان نظر آرہے تھے۔  

چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ نے فیصلے کو مایوس کن قرار دیا۔ (فوٹو: اردو نیوز)

اس غیر یقینی صورتحال میں پہلا گمان یہی کیا گیا کہ شاید ٹیم کے کسی رکن کا کورونا ٹیسٹ مثبت آگیا ہو، اس تمام صورتحال میں میڈیا باکس میں موجود پاکستان کرکٹ بورڈ حکام بھی لاعلم نظر آئے اور کوئی بات بھی یقین سے نہیں بتائی جارہی تھی۔
ابتدائی طور پر کرکٹ بورڈ حکام نے غیر حتمی طور پر بتایا کہ کچھ کھلاڑیوں کے کورونا ٹیسٹ مثبت آئے ہیں اس لیے دونوں ٹیمیں ہوٹل میں ہی موجود ہیں۔
یہ سب قیاس آرئیاں تقریباً ڈیڑھ گھنٹا جاری رہیں اور میڈیا باکس میں موجود میڈیا نمائندگان اور سٹاف اس کشمکش کا شکار رہا، شکوک و شبہات اس وقت مزید بڑھنے لگے جب میچ کے آغاز کا وقت گزرنے کے باوجود پی سی بی کی جانب سے میچ ملتوی ہونے یا تاخیر کا شکار ہونے کی کوئی بھی واضح وجہ سامنے نہیں آئی۔
اس وقت ایک بار پھر چہ موگوئیاں شروع ہوئیں اور قیاس کیا جانے لگا کہ صورتحال کسی کھلاڑی کو کورنا مثبت آنے سے بھی زیادہ تشویش ناک ہے۔ 

صورتحال اس وقت تبدیل ہوگئی جب سیکیورٹی اہلکاروں نے تماشائیوں کو سٹیڈیم میں داخل ہونے سے روک دیا (فوٹو: اردو نیوز) 

اسی دوران ایک اور اطلاع موصول ہوئی کہ وزیر داخلہ کچھ دیر بعد اہم پریس کانفرنس کرنے جا رہے ہیں۔ اس اطلاع کے ملتے ہی میڈیا باکس میں موجود نمائندگان کو بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ معاملہ اب سیکیورٹی صورتحال کی طرف ہی جاتا نظر آ رہا ہے۔  
 میڈیا باکس میں موجود کرکٹ بورڈ کے حکام اس وقت ایسے شدید دباؤ میں دکھائی دے رہے تھے جیسے کوئی گیارہواں کھلاڑی کسی تیز گیند باز کا سامنا کر رہا ہو۔
 میڈیا نمائندگان تابڑ توڑ سوالات کر رہے تھے لیکن پی سی بی حکام میڈیا ڈائریکٹر کے اجازت نامے کے انتظار میں تھے۔ بلآخر پی سی بی کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر نیوزی لینڈ کی جانب سے یکطرفہ طور پر سیریز منسوخ کرنے کی اطلاع کی تصدیق کر دی گئی۔  
اس اطلاع کی تصدیق ہوتے ہی ایک مایوسی چھا گئی اور ایک ہی سوال ذہن میں گردش کرنے لگا کہ کیا شائقین کو پھر کرکٹ کے میدان آباد کرنے کے لیے 12 سال کا طویل انتظار کرنا ہوگا؟ 

نیوزی لینڈ کی ٹیم 18 سال بعد پاکستان کا دورہ کررہی تھی (فوٹو: اردو نیوز)

نیوزی لینڈ کی جانب سے سیریز کی منسوخی کے فیصلے سے انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان پر بھی گہرے سیاہ بادل چھاگئے۔  انگلش کرکٹ بورڈ نے کہا ہے کہ پو آئندہ 24 سے 48 گھنٹوں میں فیصلہ کرے گا کہ طے شدہ دورہ ہوگا یا نہیں۔
 اس صورتحال میں سٹیڈیم کے باہر اس تماشائی کا خیال آیا جو نیوزی لینڈ کا پرچم تھامے ان کے کھلاڑیوں کا حوصلہ بلند کرنے سٹیڈیم آیا تھا۔ 18 سال بعد نیوزی لینڈ کو اپنے میدان میں کھیلتا دیکھنے والے شائیقین مایوسی لیے میدان سے واپس لوٹ گئے۔ 

شیئر: