Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کا عالمی طاقتوں سے افغانستان کے اربوں ڈالر اثاثے بحال کرنے کا مطالبہ

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ انہوں نے طالبان کی طرف سے مثبت رویہ دیکھا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان نے عالمی طاقتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد منجمد کیے گئے اربوں ڈالر کے افغان اثاثوں کو بحال کر دیں۔ تاہم پاکستان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کو نئی افغان حکومت کے جلد تسلیم کیے جانے کی توقع نہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں افغانستان پر بات چیت سے قبل پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ سب سے فوری ترجیح افغانستان میں مزید گہرے معاشی بحران کو روکنا ہے، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی کا خدشہ ہے۔
نیو یارک میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’ایک طرف آپ بحران کو روکنے کے لیے نئے سرے سے فنڈز جمع کر رہے ہیں اور دوسری جانب ان کے جو اثاثے ہیں، وہ ان کو استعمال نہیں کر سکتے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں اثاثے منجمد کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ میں [عالمی] طاقتوں پر زور دوں گا کہ وہ پالیسی کا ایک بار پھر جائزہ لیں اور [اثاثے] غیر منجمد کرنے کے بارے میں سوچیں۔‘
پاکستانی وزیر خارجہ کا ماننا ہے کہ ’یہ اعتماد سازی کا اقدام ہوگا جس سے مثبت رویے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔‘
واضح رہے کہ امریکہ نے افغان سینٹرل بینک کے 9.5 ارب ڈالر لاگت کے اثاثے منجمد کر دیے ہیں اور بین الاقوامی قرض دینے والے افغانستان کو قرض دینے سے گریز کر رہے ہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ یہ رقم طالبان استعمال کر لیں گے۔
پاکستان نے طالبان کی سنہ 1996 سے 2001 تک رہنے والی حکومت کی حمایت کی تھی جس کے نتیجے میں پاکستان کو امریکہ اور مغربی ملکوں کی جانب سے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔
طالبان سے تعلقات کے بارے میں شاہ محمود قریشی کا تقریبا امریکہ جیسا موقف تھا کہ افغانستان کی نئی عبوری حکومت کے ساتھ ابھی باقاعدہ تعلقات قائم کرنا قبل از وقت ہے۔
’مجھے نہیں لگتا کہ کسی کو بھی اس وقت [افغانستان کی نئی حکومت] تسلیم کرنے کی جلدی ہے اور طالبان کو اس پر نظر رکھنی چاہیے۔‘

شہری حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے مطابق طالبان خواتین کو ملازمت کے حصول سے روک رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے کہا کہ اگر طالبان کو اپنی حکومت تسلیم کروانی ہے تو ’انہیں بین الاقوامی رائے قبول کرنی ہوگی۔‘
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ انہیں طالبان کی جانب سے ’مثبت رویہ‘ نظر آیا ہے جس میں عام معافی کا اعلان اور پشتونوں کے علاوہ دیگر نسلی گروپوں کو شامل کرنے پر رضامندی کا اظہار شامل ہے۔
ان کے مطابق ’یہ وہ رجحانات ہیں جن کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔‘
تاہم سماجی حقوق کے لیے کام کرنے والوں اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اصل صوتحال طالبان کے وعدوں سے مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کو نوکریاں دینے اور تعلیم حاصل کرنے سے روکا جارہا ہے اور اس کا باضابطہ اعلان بھی نہیں کیا جا رہا۔

شیئر: