Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکی سی 17 طیارے سے گر کر ہلاک ہونے والوں کے لواحقین ابھی بھی وحشت زدہ

امریکی سی 17 طیارے سے کم از کم تین افراد گر کر ہلاک ہوئے تھے۔ فوٹو اے ایف پی
طالبان کے دارالحکومت پر قبضے کے اگلے روز کابل ایئر پورٹ پر ایک ایسا واقعہ پیش آیا تھا جو عمر بھر کے لیے ذہنوں پر نقش ہو کر رہ گیا ہے۔
16 اگست کو جب امریکی  فوج کے سی 17 کارگو طیارے نے اڑان بھری تو اس پر لٹکے ہوئے تین افراد گر کر ہلاک ہو گئے تھے جن میں سے ایک 24 سالہ ڈاکٹر فدا محمد بھی تھا۔
خبر رساں ادارے ایسوی ایٹد پریس کے مطابق امریکی فوج نے اس واقعے کے حوالے سے فی الحال تحقیقات مکمل نہیں کی ہیں تاہم فوج کا کہنا ہے کہ اس دن سی سترہ طیارہ سامان لے کر ایئر پورٹ پر لینڈ کیا تھا کہ لوگوں کے ہجوم نے اسے گھیر لیا۔ طیارے پر حملے کے پیش نظر عملے نے بغیر سامان اتارے اسی لمحے ٹیک آف  کا فیصلہ کیا۔ 
بعد میں منظر عام پر آنے والی ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ سینکڑوں کی تعداد میں افغان شہری ایئر پورٹ کے ٹارمک پر طیارے کے ساتھ ساتھ بھاگ رہے ہیں جبکہ درجنوں کے قریب پہیے والی جگہ پر چھپے ہوئے تھے۔ تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ اڑان بھرنے سے پہلے کتنے افراد نے طیارے پر سے چھلانگ لگائی۔
دیگر افغانوں کی طرح فدا محمد بھی جہاز کے پہیے والی جگہ میں چھپا بیٹھا تھا۔ فدا محمد کی فیملی نے بتایا کہ گزشتہ سال ہی مرحوم کی انتہائی دھوم دھام سے شادی کی تھی جس پر 13 ہزار ڈالر کا خرچہ آیا تھا۔ فدا کی خواہش تھی کہ وہ اپنے شعبے کے مطابق کابل میں دندان سازی کا کلینک کھولیں۔ ان کا یہ خواب بھی بالآخر حقیقت میں تبدیل ہو گیا تھا۔
لیکن طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد مستقبل کے تمام خواب ماند پڑتے ہوئے دکھائی دیے۔

امریکہ نے 16 اگست کو پیش آنے والے واقعے کی تحقیقات مکمل نہیں کیں۔ فوٹو اے ایف پی

فدا محمد کے والد پائندہ محمد آج تک نہیں سمجھ سکے کہ ان کا بیٹا جہاز کے پہیے پر چڑتے ہوئے کیا سوچ رہا تھا۔ ان کو خدشہ ہے کہ فدا محمد اتنا بڑا خطرہ شاید اس لیے مولنے کو تیار تھا کہ وہ اپنی شادی کے لیے لیا گیا قرضہ واپس لوٹانا چاہتا تھا۔ یہی سوچ پائیندہ محمد کو پریشان کرتی ہے کہ شاید اپنے بیٹے کی موت کے قصوروار وہ خود ہیں۔
پائیندہ محمد نے بتایا کہ وہ کئی گھنٹے اپنے بیٹے کے آخری لمحات کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔
’جب زمین دور جاتی دکھائی ہو رہی گی، تو کس قدر خوف اس پر طاری ہوا ہوگا، اور جب جہاز کے پہیے فولڈ ہونا شروع ہوئے ہوں گے تو اس کے پاس چھلانگ لگانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں بچا ہوگا۔‘
فدا محمد کے ساتھ ایک اور شخص کی لاش کابل کے رہائشی عبداللہ واعظ کے گھر کی چھت پر آ کر گری تھی۔ اس وقت عبداللہ واعظ اپنے گھر میں سو رہے تھے کہ انہیں محسوس ہوا کہ جیسے کوئی دھماکہ ہوا ہے۔ وہ گھبرا کر باہر نکلے تو پڑوسیوں نے چھت کی جانب اشارہ کیا۔
عبداللہ واعظ نے جب جا کر دیکھا تو دونوں لاشیں چھت کے ایک ہی کونے میں گری پرڑی تھیں۔ عبداللہ نے لاشوں کے اعضا ایک چادر میں اکھٹے کیے اور قریبی مسجد میں چھوڑ آئے۔
‘اگلے 48 گھنٹوں کے لیے میں نہ تو سو سکا اور نہ ہی کچھ کھا سکا۔‘
ہلاک ہونے والا دوسرا شخص صیف اللہ حوتک بھی فدا محمد کی طرح کم عمر ہی تھا۔

امریکی فوج کے انخلا کا عمل 30 اگست کی رات کو مکمل ہو گیا تھا۔ فوٹو اے ایف پی

امریکی ملٹری کا کہنا ہے کہ جب سی 17 کارگو طیارے نے قطر ایئر پورٹ پر لینڈ کیا تو جہاز کے پہیوں سے انسانی اعضا برآمد ہوئے تھے۔ تاہم فی الحال مکمل اندازہ نہیں لگایا جا سکا کہ اس اندوہناک حادثے نے کتنے لوگوں کی جانیں لیں۔
طیارے سے گرنے والے تین افراد کے علاوہ ایک اور نوجوان لھلاڑی بھی کابل ایئر پورٹ پر اسی سی سترہ کے پہیے کے نیچے آ کر ہلاک ہو گیا تھا۔
امریکہ اور اتحادی ممالک کے افغانستان سے انخلا کا عمل مکمل ہونے تک ایئر پورٹ پر بدنظمی، افراتفری اور ناامیدی کے مناظر سامنے آتے رہے۔ بھگ دڑ کے دوران ایک دو سالہ بچے کی جان بھی چلی گئی جبکہ ایئر پورٹ کے باہر ہونے والے دھماکے میں 169 افغان ہلاک اور 13 امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
انخلا کے دوران  پیش آنے والے واقعات اس قدر تکلیف دہ تھے کہ امریکی ایئر فورس نے ایئر پورٹ پر تعینات فوجیوں اور سی 17 طیارے کے عملے کی ذہنی صحت کے لیے نفسیاتی کونسلنگ سیشن کا اہتمام کیا تھا۔
دوسری جانب کابل میں پائیندہ محمد اپنے مرحوم بیٹے کی شادی کی ویڈیوز دیکھتے رہتے ہیں جس میں وہ اپنی شادی میں خود بھی ڈانس کر رہا تھا۔
پائیندہ محمد نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا ’وہ اللہ کی طرف سے ایک تحفہ تھا اور اللہ نے اسے واپس لے لیا۔‘

شیئر: