Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’80 فیصد فلسطینی شہری صدر کا استعفیٰ چاہتے ہیں‘

رائے شماری کے مطابق صرف 19 فیصد فلسطینی محمود عباس کو اپنا سربراہ بنانا چاہتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
تقریباً 80 فیصد فلسطینی چاہتے ہیں کہ صدر محمود عباس استعفیٰ دے دیں، جس سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ سکیورٹی فورسز کی حراست میں ایک کارکن کی ہلاکت اور مظاہروں میں کریک ڈاؤن پر غم و غصہ بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق منگل کو شائع ہونے والی نئی رائے شماری میں پتہ چلا ہے کہ محمود عباس کے حریف حماس کی حمایت زیادہ ہے۔
مئی میں غزہ میں 11 روز تک جاری رہنے والی جنگ میں فلسطینی اسرائیل کے خلاف حماس کو فاتح قرار دے رہے تھے جبکہ مغرب کی حمایت رکھنے والے محمود عباس کو دیوار سے لگایا گیا۔
فلسطینی سینٹر فار پالیسی اینڈ سروے ریسرچ کی رائے شماری میں پتا لگا ہے کہ 45 فیصد فلسطینیوں کا ماننا ہے کہ ان کی سربراہی اور نمائندگی حماس کرے، جبکہ صرف 19 فیصد کہتے ہیں کہ محمود عباس کی سیکولر سیاسی جماعت فتح کو یہ مقام حاصل ہونا چاہیے۔
رائے شماری کے مطابق گذشتہ تین مہینوں کے دوران فتح کو معمولی سی حمایت حاصل ہوئی ہے۔
فلسطین میں عوامی رائے کا دو دہائیوں سے سروے کرنے والے سینٹر کے سربراہ خلیل شکاکی کا کہنا ہے کہ ’صدر کے لیے یہ سب سے بدترین رائے شماری ہے جو ہم نے دیکھی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وہ کبھی اتنی بُری پوزیشن پر نہیں آئے ہیں جس پر اب ہیں۔‘
محمود عباس کی مقبولیت میں کمی اور انتخابات کروانے پر انکار کے باوجود عالمی کمیونٹی انہیں فلسطینیوں کے لیڈر کے طور پر اور اسرائیل کے ساتھ امن عمل میں اہم ساتھی کے طور پر دیکھتی ہے، جو ایک دہائی قبل رُک گیا تھا۔
امن عمل کے دوران، 1990 کی دہائی میں، اسرائیل کے ساتھ طے پانے والے عبوری معاہدوں کے تحت محمود عباس کی فلسطینی اتھاڑی مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں کا انتظام سنبھالتی ہے۔
حماس نے پارلیمانی الیکشن جیتنے کے ایک سال بعد، سنہ 2007 میں غزہ میں اقتدار حاصل کرنے پر محمود عباس کی فورسز کو غزہ سے نکال دیا تھا۔

شیئر: