Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ضمانت کیس: عدالت نے شہباز شریف کو خود دلائل دینے سے روک دیا

شہباز شریف نے کہا کہ ایف آئی اے کے افسران عدالت میں غلط بیانی کرتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی ایک عدالت نے ملک کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو اس وقت دلائل دینے سے روک دیا جب وہ دوران سماعت خود روسٹرم پر آ گئے۔  انہوں نے ایف آئی اے کے افسر کو جھوٹا کہہ دیا اور ایک مرتبہ پھر الزام عائد کیا کہ ایف آئی اے کےافسران ان کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں۔  
سنیچر کو لاہور کی مقامی عدالت میں شہباز شریف خاندان کی ایف آئی اے کے مقدمات میں عبوری ضمانتوں کی درخواست پر سماعت شروع ہوئی تو ایف آئی اے کے افسر نے عدالت کو بتایا  کہ ’2020 میں  شوگر انکوئری کمیشن بنایا گیا، کمیشن کی فائنڈنگ تھی کہ بہت سی شوگر ملز فنانشل فراڈ میں ملوث ہیں۔ رمضان شوگر ملز نے لوئر سٹاف کے نام پر اکاؤنٹس کھلوائے۔ پیسے کو فرضی انداز میں اس طرح گھمایا جا رہا ہے جس سے ظاہر ہو کہ یہ کوئی لین دین کا کاروبار ہے۔ ملازمین کے نام پر 27 اکاونٹس سامنے آئے، مزید بھی ہو سکتے ہیں۔ ان اکاؤنٹس میں 55 ہزار 894 ٹرانزیکشز ہوئی ہیں۔‘ 
ایف آئی اے نے عدالت میں یہ الزام بھی عائد کیا کہ  شہباز شریف اور حمزہ شہباز پر تفتیش میں تعاون نہیں کر رہے۔ جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ایف آئی اے  نے تفتیش مکمل کر لی ہے یا ابھی نہیں، اگر نہیں تو یہ بھی بتایا جائے کہ تفتیش مکمل کرنے میں مزید کتنا وقت درکار ہے۔ ایف آئی اے حکام نے عدالت کو بتایا کہ ’تفتیش مکمل کرنے کے لیے ملزمان کا تعاون کرنا ضروری ہے شروع دن سے ہی ملزمان تفتیش میں تعاون نہیں کر رہے۔ ملزمان یہاں تک کہتے رہے کہ انہیں ذاتی اکاؤنٹس میں آنے والے پیسے کا بھی معلوم نہیں۔‘  
ایف آئی اے کے تفتیش کار کی یہ بات سن کر شہباز شریف خود روسٹرم پر آ گئے اور عدالت کو مخاطب کر کے کہا کہ ڈائریکٹر ایف آئی اے کا بیان سن کر دکھ ہوا ’ایک افسر کا عدالت کے سامنے ایسے غلطی بیانی کرنا انتہائی افسوسناک ہے، میں جب بھی ایف آئی اے جاتا ہوں یہ میرے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں۔ جب کہ میں رمضان شوگر ملز میں ڈائریکٹر نہیں ہوں، میرے وکلا نے ایف آئی اے کو تمام جواب بھجوا دیے ہیں یہ کیس نیب کے ریفرنس کی اضافی کاپی ہے بطور وزیراعلیٰ خاندان کی شوگر ملز کو اربوں کا نقصان پہنچایا ہے، جو آفیسر نے عدالت کو باتیں بتائیں یہ غلط بیانی ہے، میں جب جیل میں تھا ان کو صراحت کے ساتھ بتایا کہ میں اس شوگر مل سے کوئی تنخواہ نہیں لیتا۔ میں اس شوگر مل میں نہ شئیر ہولڈر ہوں، نہ ڈائریکٹر ہوں، نہ عہدیدار ہوں، یہ اثاثہ میرے والد نے بنایا جسے میں نے اپنے بچوں کو منتقل کر دیا‘۔ 
شہباز شریف نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے نے انہیں ایک سوال نامہ تھمایا جو بالکل نیب کے کیس کی فوٹو کاپی تھا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اپنے خاندان کی مل کو انہوں نے اربوں روپے کا نقصان پہنچایا جس کا ریکارڈ وہ عدالت میں پیش کرنے کو تیار ہیں۔  
ن لیگ کے صدر نے جب عدالت سے مزید بات کرنے کی اجازت چاہی اور کہا کہ ایف آئی اے کے افسران عدالت میں غلط بیانی کر رہے ہیں تو انہیں روک دیا گیا۔
جج طاہر صابر نے کہا کہ ’آپ کو اجازت نہیں ہے عدالت نے آپ کو سن لیا ہے، آپ کے کیس میں ابھی دلائل نہیں ہو رہے آپ  پیچھے بیٹھ جائیں۔ ابھی ضمانت کا کیس ہے وکلا ہی دلائل دیں۔‘
شہباز شریف نے حکم سنتے ہی روسٹرم چھوڑ دیا تو عدالت نے شریک ملزمان کے وکلا کو دلائل کے لیے طلب کر لیا۔ 

تحریک انصاف کی حکومت کے ترجمان مسلم لیگ ن کے صدر پر منی لانڈرنگ کے الزامات عائد کرتے رہتے ہیں۔ فوٹو: اے پی پی

ایف آئی اے کے افسر نے عدالت کو بتایا کہ ’تفتیش کے دوران شہبازشریف سے پوچھتے ہیں کہ اکاؤنٹس میں پیسے کہاں سے آئے توشہباز شریف ہمیں یہی کہانی سناتے ہیں جو عدالت کے سامنے سنا رہے ہیں۔‘ 
عدالت نے دلائل سننے کے بعد شہباز شریف اور حمزہ شریف کی ضمانت میں 9 اکتوبر تک توسیع کر دی۔ تاہم اپنے تحریری حکم نامے میں لکھوایا کہ ملزمان ایف آئی اے کے ساتھ تفتیش میں تعاون  کریں۔  
خیال رہے کہ شہباز شریف نیب میں بھی چوہدری شوگر ملز سے متعلق کیس کا سامنا کر رہے ہیں۔ نیب نے انہیں گرفتار بھی کیے رکھا۔
ضمانت پر رہائی کے بعد ایف آئی اے نے بھی تحقیقات کا آغاز کر دیا۔ جب ایف آئی اے نے انہیں تفتیش میں شامل ہونے کے لیے نوٹس بھیجا تو انہوں نے عدالت سےعبوری ضمانت کروا لی۔  

شیئر: