Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لکس سٹائل ایوارڈز میں اچھے اداکاروں کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی: علی عباس

جب سے اینٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے ایوارڈز شو ’لکس سٹائل ایوارڈز‘ کی رواں سال کی نامزدگیاں سامنے آئی ہیں تب سے ہی سوشل میڈیا پر کئی فنکار ان نامزدگیوں سے ناخوش دکھائی دے رہے ہیں۔ کچھ اداکاروں نے دبے لفظوں تو کچھ نے کھُل کر اس ایوارڈ شو کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
اداکار علی عباس بھی ان اداکاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے لکس سٹائل ایوارڈز پر دو ٹوک انداز میں تنقید کی ہے۔ جب سوشل میڈیا پر ان کے ایک مداح نے یہ سوال اٹھایا کہ انہیں ان ایوارڈز میں نامزد کیوں نہیں کیا گیا تو علی عباس نے جواب دیا کہ ’شاید لکس سٹائل ایوارڈز والے مجھے اداکار ہی نہیں مانتے۔‘
اردو نیوز نے علی عباس سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آخر وہ لکس سٹائل ایوارڈز کی نامزدگیوں پر اس قدر ناخوش کیوں ہیں؟
علی عباس کہتے ہیں کہ ’لکس سٹائل ایوارڈز کو شو کہنا چاہیے، اگر اس کو یہ شو کہہ دیں گے تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا اس میں یہ پھر اپنے دوست احباب کو رشتے داروں کو نوازیں، ان کو ٹرافیز دیں، پیسے دیں ان سے ڈانس کرائیں جو مرضی کریں۔ میرا نہیں خیال کسی کو اعتراض ہوگا اگر یہ ایوارڈز کا نام نکال دیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’مجھ سے بہت سے مداحوں نے پوچھا تھا کہ آپ کو کیوں (ایوارڈ کے لیے) نامزد نہیں کیا تو میں نے کسی ایک کا جواب دے دیا کہ وہ جانتے ہی نہیں ہوں گے کہ علی عباس نام کا کوئی اداکار بھی ہوگا۔ ایک ہی اداکار کو دو دو کیٹگریز میں نامزد کر رہے ہیں، میرا شدید اختلاف ہے اور مجھے فرق نہیں پڑتا۔‘
علی عباس نے دو ٹوک لہجے میں کہا کہ ’مجھ سے کوئی پوچھے گا تو میں کہوں گا کہ نہایت ناانصافی پر مبنی ایوارڈز ہیں جن میں اچھے اداکاروں کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ وہ ان ایوارڈز سے اتنے مایوس کیوں ہیں، علی عباس نے بتایا کہ ’میں اتنا کھل کر بات اس لیے کر رہا ہوں کہ تقریباً سات سال میں نے بہت محتاط ہو کر بات کی لیکن میرا خیال ہے کہ کم از کم پانچ سے چھ کرداروں پر میری نامزدگی بنتی تھی، مجھے امید تھی اور ایسا نہیں ہوا۔‘
 ’اب مجھے فرق نہیں پڑتا، جب ضرورت تھی جب فرق پڑتا تھا تب ایسا نہیں ہوا۔‘

علی عباس نے کہا کہ ’میرے والد نے کبھی میری سفارش نہیں کی بلکہ میرے والد کے دشمنوں کو پتا تھا کہ مجھے انہوں نے آگے نہیں جانے دینا (فوٹو: علی عباس انسٹاگرام)

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ڈرامہ ’گھسی پٹی محبت‘  کی تازہ مثال ہے جس پر مجھے (ایوارڈ کے لیے نامزد ہونے کا) یقین تھا۔ انہوں نے ’خالی ہاتھ‘، ’تم کون پیا‘، ’کہیں دیپ جلے‘ سمیت کچھ ڈراموں کے نام گنواتے ہوئے کہا کہ ’یہ میرے وہ کردار ہیں جن کے نام مشہور ہوئے۔‘
اکثر کہا جاتا ہے سٹار کڈز کو ان کے والدین کی وجہ سے کافی مواقع ملتے ہیں تو کیا ان کے والد وسیم عباس نے کبھی کسی ڈرامے کے لیے ان کی سفارش کی ہے؟ اس سوال کے جواب میں علی عباس نے کہا کہ ’یہ بالکل غلط تاثر ہے، مجھے تو نقصان ہوا ہے یقین کریں کیونکہ میرے والد نے سفارش نہیں کی لیکن میرے والد کے دشمنوں کو پتا تھا کہ مجھے انہوں نے آگے نہیں جانے دینا۔ جہاں آپ کام کرتے ہیں وہاں دوست بھی ہوتے ہیں دشمن بھی۔‘
علی عباس کے بقول ’دوستیاں وراثت میں نہیں ملتیں لیکن دشمنیاں وراثت میں ملتی ہیں تو وہ دشمنیاں مجھے وراثت میں ملی تھیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میں نے سی ایس ایس کے پیپرز دیے تھے میں وکالت چھوڑ کر اداکاری کی طرف آیا تھا۔ میرے ابا جی ناراض تھے اور انہیں لگتا تھا کہ مجھے شاید سبق ملے گا اور میں واپس راہ راست پر آ جاؤں گا۔ میں نے شادی کر لی اور میری بیوی نے مجھے اس سارے وقت میں بہت سپورٹ کیا جس کا میں شکرگزار ہوں۔‘

علی عباس کہتے ہیں کہ ’مجھے زیادہ تر مقبولیت منفی کرداروں سے ملی، میں نیگیٹو کردار کے لیے لالچی ہو جاتا ہوں۔‘ (فوٹو: علی عباس انسٹاگرام)

علی عباس نے یہ بھی کہا کہ ’آپ ایک اوپن پول کرا لیں کہ کیا وسیم عباس نے کسی ڈائریکٹر یا پروڈیوسر کو کال کر کے کہا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا میں چھ چھ مہینے گھر بیٹھا ہوں۔‘
اداکار علی عباس زیادہ تر منفی کرداروں میں نظر آتے ہیں تو کیا یہ نیگیٹو کردار ان کی ترجیح ہے یا انہیں ایسے ہی کردار آفر ہوتے ہیں، اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ منفی کرادر میں ہی سب کچھ کرنے کے لیے ہوتا ہے، وہ ایک وقت تھا جب منفی کردار کرنے والے کے بارے میں سمجھا جاتا تھا کہ یہ مجبوری میں کر رہا ہے۔ اب مجبور وہ ہے جو مثبت کردار کر رہا ہے کیونکہ اس کے پاس کچھ کرنے کو نہیں ہوتا۔
’مجھے زیادہ تر مقبولیت منفی کرداروں سے ملی، میں نیگیٹو کردار کے لیے لالچی ہو جاتا ہوں۔‘
علی عباس اپنے آنے والے پراجیکٹ ”بد ذات“ کے لیے خاصے پر جوش ہیں جس میں وہ ایک بار پھر عمران اشرف کے ساتھ دکھائی دیں گے۔ اس ڈرامہ سیریل کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’اس ڈرامے کی کہانی خاصی دلچسپ ہے اور مردوں کے گرد گھومتی ہے ، یہ کمرشل بھی ہے اور تخلیقی کام بھی۔‘

شیئر: