Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تیونس عوام کا حکومت کو برطرف کرنے والے صدر قیس سعید کے خلاف احتجاج

پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی میں مظاہرین نے اتوار کو احتجاج کیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
شمالی افریقہ کے ملک تیونس میں تقریباً تین ہزار افراد نے صدر قیس سعید کے جولائی میں حکومت کے اختیارات پر قبضے کے خلاف احتجاج کیا اور ان سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ قیس سعید نے وزیراعظم کو برطرف کرنے اور پارلیمنٹ کو منسوخ کرنے کے دو مہینے بعد رواں ہفتے 2014 کے آئین کو نظرانداز کرکے خود کو حکومت کرنے کا اختیار دیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی میں مظاہرین نے اتوار کو احتجاج کیا اور ’عوام بغاوت کا حاتمہ چاہتے ہیں‘ کے نعرے لگائے۔
مظاہرین تیونس کے وسط میں حبیب بورگیبا ایونیو کے قریب موجود تھے، جو اُن مظاہروں کا مرکز ہے جن سے 14 جنوری 2011 میں سابق صدر زین العابدین بن علی کی حکمرانی ختم کی گئی تھی۔
اس بحران نے ان جمہوری فوائد کو خطرے میں ڈال دیا ہے جو تیونس کے باشندوں نے 2011 کے انقلاب سے حاصل کیے تھے،  جس نے ’عرب بہار‘ کے مظاہروں کو جنم دیا تھا۔
اس کے علاوہ، بحران نے عوامی مالیات کے لیے فوری خطروں سے نمٹنے کی کوششوں کو سست کردیا ہے، جس سے سرمایہ کار پریشانی کا شکار ہیں۔
قیس سعید نے کہا ہے کہ ان کے حریف ان کی جن کوششوں کو بغاوت کا نام دے رہے ہیں، ان کی سیاسی بحران، معاشی سست روی اور کورونا وائرس وبا سے نمٹنے کے لیے ضرورت ہے۔
انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ عوام کے حقوق کا خیال رکھیں گے اور آمر نہیں بنیں گے۔  
مظاہرے میں موجود نادیہ بن سلیم نامی خاتون کا کہنا تھا کہ وہ اپنے غصے کا اظہار کرنے جنوب سے 500 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے آئی ہیں۔
آئین کی ایک کاپی پکڑے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم جمہوریت کی حفاظت کریں گے۔۔۔ آئین ریڈلائن ہے۔‘

قیس سعید نے رواں ہفتے 2014 کے آئین کو نظرانداز کرکے خود کو حکومت کے اختیارات دیے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

تاہم قیس سعید کو اب بھی تیونس کے عوام کے بڑے حصے کی حمایت حاصل ہے، جن کا ماننا ہے کہ قیس سعید باقی حمکرانوں سے بہتر ہیں۔
موجودہ صدر نے اختیارات سے متعلق کوئی وقت نہیں دیا ہے، لیکن کہا ہے کہ وہ ایک کمیٹی تشکیل دیں گے تاکہ 2014 کے آئین میں ترامیم کو ڈرافٹ کیا جا سکے اور ’حقیقی جمہوریت قائم کی جائے جس میں لوگ واقعی خودمختار ہوں۔‘
تیونس کی سب سے بڑی سیاسی جماعت النہضہ نے قیس سعید کے اقدام کو ’جمہوریت کے خلاف بغاوت‘ قرار دیا ہے اور لوگوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ’انتھک، پُرامن کوشش‘ کر کے جمہوریت کے لیے متحد ہوں اور اس کا دفاع کریں۔
سال 2011 کے انقلاب کے بعد سے النہضہ تیونس میں سب سے طاقتور جماعت ہے، جس نے ملک کے صدر کا اقتدار ختم کیا اور اس کے بعد آنے والی اتحادی حکومتوں کی حمایت میں کردار ادا کیا۔

25 جولائی کی مداخلت کے بعد پہلا مظاہرہ گذشتہ ہفتے ہوا تھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

تاہم قیس سعید کی بغاوت کی وجہ سے اس سیاسی جماعت کو شدید تقسیم کا سامنا ہے۔ قانون ساز اور سابق وزرا سمیت پارٹی کے 100 سے زائد ممتاز عہدے داروں نے سنیچر کو قیادت کی کارکردگی کے خلاف احتجاج میں استعفیٰ دے دیا۔
تیونس کی بااثر مزدور یونین نے جمعے کو قیس سعید کے اقدامات کے اہم نکات مسترد کیے اور تنبیہہ کی کہ جمہوریت کو خطرہ ہے کیونکہ ان کی ’بغاوت‘ کی مخالفت میں اضافہ ہورہا ہے۔  
قیس سعید کی 25 جولائی کی مداخلت کے بعد پہلا مظاہرہ گذشتہ ہفتے ہوا تھا، جس میں سینکڑوں افراد شریک ہوئے تھے۔
آزاد قانون ساز ایاد لومی کا کہنا تھا کہ ’سعید نے مذاکرات میں خلل پیدا کردیا ہے۔۔۔ انہیں مذاکرات پسند نہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وہ سب کو الگ کرنا چاہتے تھے اور تمام اختیارات لے رہے ہیں۔۔۔ سعید کو برطرف کر کے ٹرائل پر ڈال دینا چاہیے۔‘
دیگر چار سیاسی جماعتوں نے بدھ کو ایک مشترکہ بیان جاری کر کے قیس سعید کی مذمت کی ہے اور ہارٹ آف تیونسیا نامی سیاسی جماعت نے بھی یہی کیا ہے۔

شیئر: