Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اوورسیز پاکستانیوں کے بھیجے گئے پیسوں کی بڑے پیمانے پر تحقیقات

ایف آئی اے نے کم سے کم 500 افراد کو نوٹسز بھیجے ہیں (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے بیرون ملک سے پاکستان میں بھیجی گئی اربوں روپے کی رقوم پر تحقیقات شروع کر رکھی ہیں۔
اردو نیوز کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سال 2018 اور 2019 میں جن افراد نے بیرون ملک سے پاکستان میں رقوم بھیجیں ان میں سے کم سے کم 500 افراد کو ایف آئی اے نے نوٹسز بھیجے ہیں۔  
لاہور کے ایک رہائشی محمد خان (فرضی نام) کو 24 جولائی 2021 کو ایک نوٹس موصول ہوا جو کہ ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل پنجاب زون ون کی جانب سے بھیجا گیا تھا۔
تحریری نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ’ایف آئی اے آپ کے خلاف حوالہ، ہنڈی کے ذریعے منی لانڈرنگ کرنے کے ایک مقدمے میں تحقیقات کرنا چاہتا ہے۔‘
’ہمیں دستیاب معلومات کے مطابق آپ کے بینک اکاؤنٹ میں 2019 میں 50 لاکھ روپے دبئی سے ترسیلات زر کی مد میں بھیجے گئے ہیں۔ آپ دفتر میں حاضر ہو کر اس رقم کے بارے میں تسلی بخش اور درست جواب دیں۔‘ 
محمد خان نے بتایا کہ ’ان کے بیٹے نے دو سال پہلے اپنی جمع پونجی تقریباً 40 لاکھ روپے بھیجے۔ ’وہ پیسے سیدھے میرے بینک اکاؤنٹ میں آئے اور ہم نے نکال کر کچھ قرض اتارا اور کچھ رقم چھوٹے موٹے کاروبار میں لگائی۔‘
’دو سال بعد اپریل 2021 میں ہمیں ایف آئی اے سے نوٹس موصول ہوا کہ اس رقم کے بارے میں بتائیں جو باہر سے بھیجی گئی ہے۔‘
 ہم نے بتایا کہ کہ بیٹے نے باہر سے بھیجی ہے لیکن ہم پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ ہم نے پہلے حوالہ کے ذریعے رقم  منی لانڈر کر کے رقم  یہاں سے باہر بھیجی اس کے بعد باہر سے بینک کے ذریعے منگوائی ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ اس کا اب ہم کیا کریں۔‘ 
لاہور ہی کے ایک اور شہری محمد رمضان (فرضی نام) نے بھی کچھ اس قسم کی کہانی سنائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ان کے بھائی نے 2020 میں 45 لاکھ روپے بھیجے اور اب ایف آئی اے نے اس پر نوٹس بھیج دیا ہے۔‘

لاہور کے ایک شہری کا کہنا ہے کہ ’ان کے بھائی نے 2020 میں 45 لاکھ روپے بھیجے اور اب ایف آئی اے نے نوٹس بھیج دیا ہے‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

 ’ہم تو وہ رقم خرچ بھی کرچکے ہیں اب یہ ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ یہ بھی بتائیں کہ میرا بھائی اُدھر کیا کرتا ہے اور ہم اِدھر کیا کرتے ہیں، عجیب و غریب سوال کرتے ہیں۔ وہ دو مرتبہ چکر لگا چکے ہیں۔‘ 
اردو نیوز کو دستیاب معلومات کے مطابق ایف آئی اے نے فروری 2021 میں ایک مقدمہ درج کیا جس میں چار پاکستانی نژاد منی ایکسچینجرز (جو دبئی میں کاروبار کرتے ہیں) سمیت 500کے لگ بھگ ایسے افراد کو نامزد کیا ہے۔
ان افراد کے اکاؤنٹس میں 2018 اور 2019 میں باہر سے ترسیلات زر آئیں، جبکہ یہ 2 ارب 50 کروڑ روپے سے زائد کی رقم ہے جس کے بارے میں 500 افراد سے تحقیقات ہو رہی ہیں۔  
اس مقدمے میں ایف آئی اے کے تفتیشی افسر اور ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے نارتھ ابوبکر خدا بخش کے سٹاف افسر وقار احمد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ مقدمہ ان کی تعیناتی سے پہلے کا چل رہا ہے۔‘
’میں اس مقدمے کا تفتیشی افسر ہوں اور ابھی تک ہم یہ نہیں ڈھونڈ پائے کہ یہ رقم حوالہ یا ہنڈی کے ذریعے باہر بھیجی گئی یا نہیں۔‘

کارپوریٹ جرائم کے ماہرین وکلا سمجھتے ہیں کہ ایف آئی اے کی تحقیقات غیر ضروری ہیں (فائل فوٹو: ایف آئی اے ویب)

 انہوں نے بتایا کہ ’ابھی تو صرف یہ ایک الزام ہے جس کی تحقیقات ہم کر رہے ہیں‘۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مقدمے میں جتنے بھی افراد کو نوٹسز بھیجے گئے ہیں ان کو ایف آئی آر کی نقل فراہم نہیں کی گئی۔
 نوٹس میں صرف ایف آئی آر نمبر 5/2021کا ذکر کیا گیا ہے۔ جب وقار احمد سے مقدمے کی ایف آئی آر دکھانے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے اس سے معذرت کر لی۔ انہوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ یہ مقدمہ کس کی ایما یا مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔  
وقار احمد نے مزید بتایا کہ ’باہر سے رقوم آنا ایک احسن اقدام ہے لیکن ایف آئی اے ان چار منی ایکسچینجرز کے خلاف تحقیقات کر رہی تھی جنہوں نے اپنے نام سے رقوم پاکستان بھیجیں۔‘
’ایف آئی اے کو ان چار افراد پر شک تھا اس لیے ان سے تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔ ہم ان افراد سے سادہ سے سوال کر رہے ہیں کہ ان کے جن رشتہ داروں نے یہ رقم بھیجی ان کے وہاں کام کیا ہیں؟‘
انہوں ںے کہا کہ ’ان سے سوال کیا گیا کہ اس رقم کا استعمال کیسے کیا گیا؟ اس اکاؤنٹ میں رقم منگوا کر دوبارہ اس اکاؤنٹ کو استعمال کیوں نہیں کیا گیا؟ اور یہ رقم ان چار افراد کے ذریعے ہی کیوں بھیجی گئی؟‘
’ہمیں شک تو ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ ابھی تک ہمارے پاس کسی قسم کا ثبوت نہیں ہے اس لیے ابھی تک گرفتاریاں بھی نہیں کی گئیں۔‘  
کارپوریٹ جرائم کی وکالت کے ماہر ایڈووکیٹ ملک عثمان سمجھتے ہیں کہ یہ غیر ضروری تحقیقات ہیں۔
’اگر آپ قانونی طور پر پوچھیں تو بیرون ملک سے آنے والی رقم کی اتنی سکروٹنی نہیں ہو سکتی جتنی اس مقدمے میں کی جارہی ہے۔ ایف آئی اے اس مقدمے میں جس قانون کی سب سے بڑی خلاف ورزی کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ آپ ملزم کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنے خلاف خود گواہ بنے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس وقت منی لانڈرنگ اور ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے قوانین سخت ہیں اور یہ تحقیقات ہونی بھی چاہیں لیکن یہ پہلی باہر کی منی لانڈرنگ کے ثبوت نہ ہونے کی بنیاد پر اتنے بڑے پیمانے پر تحقیقات کی جا رہی ہیں۔‘ 
مقدمے کے تفتیشی افسر وقار احمد نے اس بات کا اعتراف کیا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا اور مختلف مقدمہ ہے۔ اس مقدمے میں 500 اکاؤنٹس میں 10 لاکھ روپے سے لے کر ایک کروڑ روپے تک کی آنے والی رقوم کی تحقیقات کو تقریباً نو ماہ ہونے کو ہیں لیکن ابھی تک نہ تو اس کی ایف آئی آر تک کسی کو رسائی دی جارہی ہے نہ ہی عدالت میں چلان پیش کیا جا رہا ہے۔  

شیئر: