Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملالہ یوسف زئی، پاکستانیوں کیلیے آکسفورڈ سکالرشپ

برطانیہ میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر معظم احمد خان نے کہا کہ یہ پروگرام مستحق پاکستانی طلبہ کے لیے نئے مواقع پیدا کرے گا۔ (فوٹو: طاہر ملک)
برطانیہ کی مشہور آکسفورڈ یونیورسٹی میں پاکستانی اساتذہ اور ملالہ یوسف زئی سمیت طلبہ نے مل کر  دی آکسفورڈ پاکستان پروگرام کا آغاز کیا ہے تاکہ یونیورسٹی میں  پاکستان سے متعلق  سرگرمیوں کو آگے بڑھایا جائے اور پاکستانیوں کے لیے آکسفورڈ میں مواقع بڑھائے جائیں۔
اس حوالے سے  آکسفورڈ یونیورسٹی کے نوجوانوں کی کاوشوں کے ذریعے آدھے ملین پاؤنڈ کی ایک خطیر رقم جمع ہوگئی ھے جس میں برطانیہ اور پاکستان کی معروف کاروباری شخصیات بشمول لمز یونیورسٹی کے سید بابر علی، ملالہ یوسفزئی اور پاکستان کے نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کے بیٹے کا تعاون بھی شامل ہے۔
نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی آغاز سے ہی اس پروگرام کو سپورٹ کرتی رہی ہیں، انہوں نے ایک بڑے سکالرشپ پروگرام کا اعلان کیا جس کے ذریعے کم ترقی یافتہ پس منظر سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی کو ہر سال آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل سکے گا۔
پروگرام کے تحت مستحق پاکستانی طلبہ کے لیے سکالرشپ کے علاوہ پاکستان کے فیکلٹی ممبرز کے لیے وزٹنگ فیلوشپ  اور پاکستان میں خصوصی لیکچرز کا اہتمام کیا جائے گا۔ یہ پروگرام آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر عدیل ملک، ایروسپیس میٹیریلز کے لیکچرر ڈاکٹر طلحہ جے پیرزادہ اور معروف وکیل ہارون زمان کی تخلیق ہے۔
اس حوالے سے لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے چانسری ہال میں جعمرات کو ایک تقریب ہوئی جس میں ملالہ  یوسف زئی سمیت آکسفورڈ سے تعلق رکھنے والے 21 پروفیسرز اور فیلوز نے شرکت کی جس میں آکسفورڈ کالجز کے چار پرنسپلز اور ہیڈز شامل تھے۔
ان میں دی گارجین کے سابق ایڈیٹر اور لیڈی مارگریٹ ہال کے رخصت ہونے والے پرنسپل ایلن رسبرجر، موجودہ پرنسپل پروفیسر کرسٹین جیرارڈ، لنیکر کالج کے پرنسپل ڈاکٹر نک براؤن، وولفسن کالج کے صدر سر ٹم ہچنز، آکسفورڈ یونیورسٹی کے انٹرنیشنل انگیجمنٹ آفس کے ڈائرکٹر ایڈ ناش اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں انڈرگریجویٹ ایڈمشنز کی ڈائریکٹر سارا خان شامل تھے۔
اپنی تقاریر میں یونیورسٹی کے سینئیر ممبرز نے اس اقدام کی بھرپور حمایت کی اور کہا کہ اس کے ذریعے نہ صرف آکسفورڈ یونیورسٹی جیسے ادارے میں پاکستان سے متعلقہ تعلیمی سرگرمیوں کو مدد ملے گی بلکہ کم نمائندگی رکھنے والی کمیونیٹیز کو اس کے ذریعے یونیورسٹی تک رسائی میں سہولت فراہم ہو گی۔
پراسپیکٹ میگزین کے آنے والے ایڈیٹر ایلن رسبرجر نے اس اقدام کو عملی شکل دینے پر پروگرام ٹیم اور ملالہ یوسفزئی کے جذبے کی تعریف کی۔ یونیورسٹی کے سینئیر ممبرز نے پاکستان اور آکسفورڈ کے تاریخی رشتوں کا ذکر کرتے ہوئے لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور موجودہ وزیراعظم عمران خان کا خصوصی تذکرہ کیا۔

پروگرام کے تحت مستحق پاکستانی طلبہ کے لیے سکالرشپ کے علاوہ پاکستان کے فیکلٹی ممبرز کے لیے وزٹنگ فیلوشپ  اور پاکستان میں خصوصی لیکچرز کا اہتمام کیا جائے گا۔ (فوٹو: طاہر ملک)

آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر عدیل ملک نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان کو ابھی تک سکیورٹی، شدت پسندی اور عسکریت پسندی کے محدود چشمے سے دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان وہ ملک ہے جہاں پر آغاز سے ہی اسلام اور سماجی انصاف جیسے موضوعات پر مباحث کا آغاز ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں شہریوں کے حقوق اور سیاسی و معاشی اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے اداراتی سطح پر متحرک جدوجہد جاری ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر عدیل ملک نے او پی پی کی ٹیم کے ساتھ نیشنل ساورنٹی اینڈ ڈیویلپمنٹ کےعنوان سے ایک تحقیقی اقدام کا بھی اعلان کیا جسے آکسفورڈ کے لنکن کالج سے تعلیم حاصل کرنے والے محمد علی جوہر کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔
لمز کے بانی سید بابر علی نے اپنے کلیدی خطاب میں اس قدم کو تاریخی کاوش قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے پاکستانی طلبہ کے لیے بڑی پیمانے پر مواقع میسر آئیں گے۔
اس موقع پر پاکستان میں پہلے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کے فرزند احمد سلام نے اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کے والد زندہ ہوتے تو وہ اس کے زبردست حامی ہوتے۔
تقریب کے دوران اسلام آباد میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر ڈاکٹر کرسچن ٹرنر کا ریکارڈ کیا گیا پیغام بھی سنایا گیا جس میں انہوں نے آکسفورڈ پاکستان پروگرام کو برطانیہ اور پاکستان کے درمیان موجود تعلیمی رشتوں کو مضبوط کرنے کے حوالے سے ایک سنگ میل قرار دیا۔
برطانیہ میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر معظم احمد خان نے کہا کہ یہ پروگرام مستحق پاکستانی طلبہ کے لیے نئے مواقع پیدا کرے گا۔ انہوں نے او پی پی کے لیے ہائی کمشن کی جانب سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
اس موقع پر کئی متمول پاکستانیوں نے پروگرام کے لیے مالی تعاون کی یقین دہائی کرائی، پاکستان میں ٹریٹ گروپ آف کمپنیز کے سی ای او سید شہریار علی نے اپنی مرحوم خالہ کے سید نیلوفر مہدی کے نام سے گریجویٹ سکالرشپ کا اعلان کیا جو پانچ سال تک جاری رہے گا۔ اسی طرح دادابائی گروپ کے ڈائرکڑ عبدالغنی دادابائی نے ہر سال ایک محمد اقبال لیکچر کو سپانسر کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے وزٹنگ سکالرز پروگرام کی سپورٹ کا اعلان بھی کیا۔
اسماعیل گروپ آف انڈسٹریز کے ڈائرکٹر حامد اسماعیل نے پاکستان کی سرکاری یونیورسٹیوں سے ہر سال ایک فیکلٹی ممبر کے لیے آکسفورڈ یونیورسٹی آنے کے اخراجات کی ذمہ داری اٹھانے کا اعلان کیا۔

ملالہ یوسف زئی کا جب آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ ھوا تو وہ بھی پاکستان سوسائٹی کی ممبر بن گئی۔ (فوٹو: طاہر ملک)

حکومت پاکستان کے ٹیکس محتسب کے ادارے کے سابقہ فیڈرل سیکرٹری احمد اویس پیرزادہ زمبابوے میں فرائض کی ادائیکی کے دوران انتقال کر جانے والے ڈاکٹر احمد بلال شاہ کی یاد میں جمال سکالرشپ پروگرام کا اعلان کیا۔
لندن کے کرامویل ہسپتال کنسلٹنٹ فزیشن ڈاکٹر طارق زمان نے سالانہ گریجویٹ سکالرشپ کے لیے فنڈز کی فراہمی کا وعدہ کیا، اسی طرح اریب چوہدری نے پاکستان سے ایک طالبہ کو سپانسر کرنے کا اعلان کیا، آکسفورڈ بزنس کالج کے ڈائرکٹر سرور خواجہ نے پانچ برس کے لیے گریجویٹ سکالرشپ کے لیے فنڈز کی فراہمی کا وعدہ کیا۔
تقریب کے دوران لندن ہیج فنڈ ویسٹرج مارکیٹس کے شریک بانیان شامل ملک اور عمر سلمان نے پاکستان پر ایک ریسرچ کو فنڈ کرنے کا اعلان کیا۔
متعدد سینئیر پروفیشنلز اور کاروباری افراد نے زوم کے ذریعے تقریب میں شرکت کی، ان میں سیکرٹری پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ حامد یعقوب، فیروزسنز لمیٹڈ کے سی ای او عثمان وحید، کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کی چئیرپرسن مسز راحت کونین شاہ، سابقہ وفاقی سیکرٹری فائنانس آصف باجوہ اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر جیل عباس جیلانی شامل تھے۔
یاد رہے کہ تحریک پاکستان کے دوران کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ کے طالبعلموں نے وطن پرستی کے جذبہ سے سرشار ھو کر now or never یعنی اب نہیں تو کبھی نہیں کہ عنوان سے قیام پاکستان کا مقدمہ پیش کیا ان طلبہ میں چوھدری رحمت علی اسلم خٹک اور دیگر طلبہ شامل تھے ۔
برطانیہ میں پاکستانی طلبہ ایک کثیر تعداد میں زیر تعلیم ہیں وہ دوران تعلیم ملک کی فلاح و بہتری اور روشن مستقبل کے لئے فکر مند رھتے ہیں لیکن فکر مندی سے آگے بڑھ کر کیا عملی طور پر کچھ کیا جائے اس پر غور و غوض کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔
چند دہائیوں قبل برطانیہ کی مشہور زمانہ یونیورسٹی میں پاکستانی طلبہ نے پاکستان سوسائٹی کی بنیاد رکھی ۔ ان میں سے بہت سے طلبہ عملی زندگی میں مختلف شعبہ زندگی میں نمایاں عہدوں پر فائز ھوئے ۔
ملالہ یوسف زئی کا جب آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ ھوا تو وہ بھی اس سوسائٹی کی ممبر بن گئی۔ ڈاکٹر عدیل ملک ڈاکٹر طلحہ اور برطانیہ کے معروف وکیل ھارون نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں پاکستان پروگرام کے تصور کو عملی شکل پہنانے میں دن رات محنت کی۔
دنیا کے بااثر اور طاقتور ممالک کلچرل سفارت کاری کے ذریعے اپنے ملک پر تحقیق کو فروغ دینے کے لئے بیرونی ممالک میں ایسے مراکز اور فورم قائم کرتے ہیں جس کے ذریعے ان کے ملک کا تاثر بہتر ھو اس کے اثر و رسوخ میں اضافہ ھو ۔
امریکہ کا  امریکن سینٹر جرمنی نے گوئٹے انسٹیٹیوٹ برطانیہ نے برٹش کونسل اور چین نے کنفوشیس انسٹیٹیوٹ اسی سلسلے کی کڑی ھے ۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی بیرونی ممالک میں پاکستان کے نقطہ نظر کو اجاگر کرنے کی اہمیت سے باخبر تھے انہوں نے آکسفورڈ کیمبرج ھائیڈلبرگ کولمبیا یونیورسٹی میں پاکستان چیئر بھی قائم کیں۔
لیکن بعد میں آنے والی حکومتوں نے اس معاملہ میں زیادہ دلچسپی ظاہر نہ کی ۔اب حال یہ ھے کہ دنیا کے بیشتر مقامات پر یہ پاکستان چیئر خالی پڑی ہیں۔

شیئر: