Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغان طالبان بار بار پاکستان کے ساتھ سرحد کیوں بند کر رہے ہیں؟

افغانستان میں برسر اقتدار طالبان حکومت نے ایک بار پھر پاکستان سے ملحق چمن سرحد بند کر دی۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران یہ تیسرا موقع ہے کہ طالبان نے احتجاج کے طور پر سرحد پر آمدروفت معطل کی ہے۔
افغانستان کی سابق حکومت کی نسبت طالبان کے ساتھ بہتر تعلقات کے باوجود پاک افغان سرحد پر آمدروفت کے لیے پاکستان کی عائد کردہ شرائط پر ہمسایہ ملک کی نئی حکومت متفق نہیں ہو رہی اور اس کے نتیجے میں بار بار سرحد کی بندش سے دونوں طرف کے عوام خصوصاً تاجر اور مزدور طبقہ متاثر ہیں۔
تاجروں کا کہنا ہے کہ ہر بار سرحد کی بندش سے انہیں کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سپین بولدک چمن مشترکہ سرحدی گزرگاہ کو منگل کی صبح بند کیا گیا۔
پاکستان سے ملحقہ افغانستان کے جنوبی صوبہ قندھار کے گورنر حاجی محمد یوسف وفا کے دفتر سے پیر کی شام کو پشتو زبان میں جاری ہونے والے  بیان میں کہا گیا ہے کہ'صوبہ قندھار  کے ضلع سپین بولدک میں پاکستان کے ساتھ سرحد پر لوگوں، تاجروں اور مریضوں کے لیے بہت مسائل پیدا کیے گئے ہیں اور امارت اسلامیہ کی بار بار کوششوں کے باوجود پاکستانی حکام ابھی تک مسائل حل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
'بیان میں شہریوں کو سرحد کی طرف جانے سے منع کرتے ہوئے مزید کہا گیا ہے کہ ان مسائل کے حل  ہونے تک  سرحد ہر قسم کے نقل و حمل کے لیے بند رہے گی۔
چمن میں سرحد پر تعینات سکیورٹی حکام اور ضلعی انتظامیہ  نے سرحد کی بندش کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’طالبان کی جانب سے اس غیر معمولی اقدام سے قبل پاکستانی حکام کو آگاہ نہیں کیا گیا۔‘
چمن میں مقامی حکام کو سرحد پر پیش آنے والے مسائل پر میڈیا سے بات کرنے سے منع کیا گیا ہے تاہم ضلعی انتظامیہ کے ایک آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ طالبان نے چمن کی مقامی انتظامیہ یا سرحد پر تعینات سکیورٹی حکام سے اب تک اس مسئلے پر اب تک باضابطہ رابطہ نہیں کیا۔ پیر کی شام کو ہماری سکیورٹی فورسز نے سرحد کی دوسری جانب افغان حدود میں طالبان کی جانب سے غیر معمولی سرگرمیاں دیکھیں۔ وہ سیمنٹ کے بڑے بلاکس رکھ کر سرحد کو بند کر رہے تھے۔
پیدل آمدورفت کے ساتھ ساتھ سرحد پر تجارتی سامان لے جانے والی گاڑیوں کو بھی روک لیا گیا ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی سرگرمیاں بھی معطل ہیں۔ سرحد بند ہونے سے دونوں طرف تجارتی گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئی ہیں جبکہ خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں پاکستانی و افغان باشندے بھی پھنس گئے ہیں۔
طالبان بار بار سرحد کیوں بند کر رہے ہیں؟
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع چمن سے ملحقہ سرحدی شہر سپین بولدک پر طالبان نے بدھ 14 جولائی کو قبضہ کرلیا تھا جس کے باعث ایک دن تک سرحد بند رہی۔
اگلے روز یعنی جمعرات 15 جولائی کو سرحد آمدروفت کے لیے بحال کی گئی۔ اس دوران کورونا کے باعث پاکستانی حکام نے سرحد پر آمدروفت کے لیے صرف دو گھنٹہ کا وقت مقرر کر رکھا تھا۔ وقت میں اضافہ نہ کرنے اور افغان شہریوں کو پاکستان میں داخلے کی اجازت نہ دینے پر طالبان نے چھ اگست کو سرحدی گزرگاہ باب دوستی پر سیمنٹ کے بڑے بلاکس اور دیگر رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کر دیا۔

طالبان نے دو ماہ کے دوران تیسری بار سرحد بند کر دی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

طالبان نے سرحد کھولنے کے لیے  پانچ شرائط پیش کیں جس میں سے پاکستان نے صرف دو یعنی سرحد کھولنے کا دورانیہ یومیہ آٹھ گھنٹے کرنے اور افغان سرحدی ضلع سپین بولدک کے رہائشیوں کو پاکستان آنے کی اجازت دینے کی شرائط مانیں اور ایک ہفتے بعد سرحد کھول دی گئیں۔
30 ستمبر کو طالبان نے سرحد پر تعینات پاکستانی فورسز کے ساتھ تلخ کلامی کے بعد دوبارہ سرحد بند کر دی مگر اگلے دن یعنی یکم اکتوبر کو سرحد پر ایک بار پھر آمدروفت کا سلسلہ شروع ہوا۔ منگل کو طالبان نے دو ماہ کے دوران تیسری بار سرحد بند کر دی۔
چمن کے مقامی صحافی و تجزیہ کار نور زمان اچکزئی کے مطابق طالبان افغان شہریوں خصوصاً سپین بولدک کے رہائشیوں کے لیے افغان شناختی دستاویز ’تذکرہ‘ کی بنیاد پر بلا رکاوٹ پاکستان میں داخلے کی اجازت چاہتے ہیں جبکہ پاکستان کے لیے سکیورٹی خطرات کے پیش نظر غیر قانونی نقل و حمل کو مزید جاری رکھنا ایک مشکل فیصلہ ہے اس لیے پاکستان نے افغان شہریوں کی غیر قانونی طور پر آمد کو روکتے ہوئے داخلے کی لیے سخت شرائط عائد کر دی ہیں جس سے نہ صرف افغان شہری بلکہ پاکستانی باشندے بھی متاثر ہوئے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2600 کلومیٹر سے زائد سرحد پر چمن اور طورخم دو بڑی سرحدی گزر گاہیں ہیں جن پرعام حالات میں روزانہ ہزاروں پاکستانی و افغان باشندوں کی آمدروفت ہوتی ہے۔
طورخم سرحد پر 2016 میں آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزا لازمی قرار دیا گیا تاہم پاکستانی حکومت کوششوں کے باوجود چمن سرحد پر اب تک پاسپورٹ اور ویزے کے اطلاق کو یقینی نہیں بناسکی ہے۔
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق موجودہ نئی شرائط سے قبل چمن سرحد سے روزانہ تقریباً 25 سے 30 ہزار پاکستانی اور افغان باشندے پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر سرحد عبور کرتے تھے۔ اسی طرح پاکستانی سرحدی علاقوں چمن اور قلعہ عبداللہ کے تقریباً دس سے بارہ ہزار تاجر افغانستان کے سرحدی شہر سپن بولدک میں کاروبار کے لیے صبح جاتے اور شام کو آتے تھے۔
کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد اگست کے مہینے کے آخری دنوں میں بڑے پیمانے پر افغان شہری پاکستان آنا شروع ہوئے تو سرحد پر تعینات پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں نے پاکستان میں داخلے کی شرائط سخت کرتے ہوئے افغان شہریوں کے داخلے پر پابندی لگائی۔
چمن کے صحافی و تجزیہ کار نور زمان اچکزئی کے مطابق گزشتہ ایک ماہ سے ان پاکستانی باشندوں کو بھی پاکستان نہیں آنے دیا جا رہا ہے جن کے شناختی کارڈ پر سرحدی ضلع چمن کا پتہ درج نہیں جس کی وجہ سے افغانستان کی حدود میں ہزاروں پاکستانی بھی پھنسے ہوئے ہیں۔

طالبان نے 15 اگست کو کابل کا کنٹرول حاصل کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سپین بولدک میں پھنسے ہوئے ایک پاکستانی شہری خان محمد نے بتایا کہ ’افغان سرحدی ضلع کے رہائشیوں کو دور کی بات پاکستانی باشندوں کو بھی واپس اپنے ہی ملک نہیں آنے دیا جا رہا۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ تین ہفتوں سے سپین بولدک میں پھنسے ہوئے ہیں لیکن شناختی کارڈ پر کوئٹہ کا پتہ درج ہونے کی وجہ سے پاکستانی اہلکار انہیں باب دوستی گیٹ سے ہی واپس افغانستان بھیج دیتے ہیں۔
سرحد پر تعینات اہلکاروں کے مطابق ان سختیوں کی وجہ سے چمن کے راستے افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے کی اوسطاً تعداد یومیہ اب  کئی گنا کم ہو گئی ہے۔
صحافی نور زمان اچکزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ چونکہ افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں آباد ہیں۔ اس کے علاوہ افغان شہریوں کی بڑی تعداد کاروبار، تعلیم اور علاج کی سہولیات کے لیے بھی پاکستان پر انحصار کرتے ہیں۔ اس لیے طالبان پر اندرونی طور پر بڑا دباؤ ہے کہ وہ سرحد پر آمدروفت کے لیے پاکستان کی کڑی شرائط کو قبول نہ کریں۔
ان کے بقول ’طالبان چاہتے ہیں کہ سابق افغان حکومت کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت سرحدی ضلع سپین بولدک کے رہائشیوں کے ساتھ ساتھ ان افغان باشندوں کو بھی  پاکستان میں داخلے کی اجازت دی جائے جن کے رشتہ دار پاکستان میں رہتے ہیں یا وہ علاج کے لیے پاکستان جانا چاہتے ہیں۔‘
بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیا اللہ لانگو کہہ چکے ہیں کہ حکومت افغان باشندوں کو غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے گی اور باڑ لگنے کے بعد مشترکہ سرحدی گزرگاہوں پر آمدورفت کو قانونی شکل دینے کے لیے اقدامات کیے جا ریے ہیں۔   
دوسری طرف سپین بولدک میں طالبان کے مقامی عہدیدار کہتے ہیں کہ ’طالبان کے رہنما اور گورنر قندھار نے کئی بار پاکستانی حکام سے مشکلات کے حل کے لیے رابطہ کیا لیکن یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان وعدوں پر عمل نہیں کر رہا اس لیے وہ تاحکم ثانی اس سرحد کو بند ہی رکھیں گے۔‘
یہ بات قابل ذکر ہے کہ گذشتہ ماہ افغان طالبان نے ویزے کے حامل افغان باشندوں کو پاکستان میں داخلے کی اجازت نہ دینے پر طورخم سرحد کو بھی احتجاجاً بند کر دیا تھا۔
سرحد بند ہونے سے پیدل آمدورفت کے ساتھ ساتھ تجارتی سرگرمیاں معطل ہیں اور سرحد کے دونوں جانب پھل، سبزیوں اور تجارتی سامان سے لدی گاڑیوں کی قطاریں لگ گئی ہیں۔
چمن چیمبر آف کامرس کے نومنتخب صدر محمد ہاشم نے اردو نیوز کو بتایا کہ پاک افغان سرحد کی آئے روز بندش اور غیر یقینی صورتحال سے سب سے زیادہ تاجر متاثر ہیں۔  تازہ پھلوں اور سبزیوں کی تجارت کرنے والے تاجروں کو ہر بار کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
بلوچستان نیشنل فروٹ اینڈ ویجیٹیبل کمیشن ایجنٹس کے جنرل سیکریٹری شیر علی کے مطابق ’بلوچستان میں کاشت کی جانے والی سبزیوں کا آدھے سے زیادہ حصہ افغانستان یا ایران بھیجا جاتا ہے۔ افغانستان سے بھی تازہ پھل اور سبزیوں کا بڑا حصہ پاکستان لایا جاتا ہے۔ افغانستان سے ان ان دنوں پیاز، انگور اور انار آ رہا ہے۔ سرحد کے دونوں جانب کوئی کولڈ سٹوریج نہیں اس لیے جب سرحد اچانک بند ہوتی ہے تو گاڑیوں میں لوڈ تازہ پھل اور سبزیاں خراب ہو جاتی ہیں اور مقامی مارکیٹ میں قیمتیں بھی گر جاتی ہیں جس سے کاشت کاروں اور سبزی و فروٹ منڈی کے تاجروں کا بھاری نقصان ہو جاتا ہے۔‘

طالبان کے کنٹرول سے پہلے چمن اور طورخم سرحد کے ذریعے روزانہ ہزاروں افراد کی آمدورفت ہوتی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

افغانستان کے ساتھ تجارت کرنے والے کوئٹہ چمبر آف کامرس کے سابق سینیئر نائب صدر بدر الدین کاکڑ کا کہنا ہے کہ ’سابق افغان حکومت کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ تھے اس لیے وہ پاکستان کے ساتھ تجارت کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے تھے جواب میں پاکستان بھی اس سرحد پر تاجروں کو سہولیات فراہم نہیں کرتا تھا۔ اس صورتحال میں پاکستان کی افغانستان کے ساتھ تجارت کا ہجم 3 ارب ڈالر سے کم ہوکر 78 کروڑ ڈالر تک آ گیا۔‘
بدرالدین کاکڑ کے مطابق نئی افغان حکومت کے آنے کے بعد وہاں مالی و اقتصادی بحران ہے اس بحران کے اثرات سے پہلے ہی بلوچستان متاثر تھا اب بغیر اطلاع یک دم سرحد بند ہونے کے مزید منفی اثرات تجارت پر پڑ رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ چمن سرحد کی اسی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے اب زیادہ تر تجارت طورخم سرحد پر ہوتی ہے جس سے بلوچستان کی معیشت  کو نقصان ہوا ہے۔
چمن چیمبر آف کامرس کے صدر محمد ہاشم کا کہنا ہے کہ ’دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ بارڈر مینجمنٹ بننے تک یہ مسائل جاری رہیں گے۔ پاکستان نے حالیہ دنوں میں افغانستان سے پھلوں کی درآمد پر 17 فیصد سیلز ٹیکس ختم کر دیا تھا۔ یہ اچھا اقدام تھا مگر دوسری طرف افغانستان میں طالبان حکومت اب تک نظام کو بحال نہیں کر سکے ہیں۔ افغانستان میں تاجروں کی ایک ہزار سے زائد گاڑیاں اڑھائی ماہ سے کھڑی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارا مطالبہ ہے کہ سکیورٹی کے مسائل باہمی طور پر حل کیے جائیں جبکہ تجارت کے فروغ کے لیے ایرانی سرحد کی طرز پر دونوں ممالک کے حکام، تاجر، کسٹم اور متعلقہ اداروں کے نمائندوں پر مشتمل مشترکہ کمیٹی بنائی جائے جو ہفتہ وار اجلاس بلاکر باہمی مسائل کو حل کریں۔‘

شیئر: