Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نور مقدم کیس: ’90 دن سے زیر حراست ہوں، فیصلہ کب آئے گا؟‘

نور مقدم قتل کیس میں ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی موخر کر دی گئی ہے۔
بدھ کو اسلام آباد سیشن عدالت میں ملزمان کو پیش کیا گیا۔ ملزمان کے وکیل نے تین مختلف درخواستیں دائر کرتے کوئے چالان کے ساتھ تفصیلات فراہم کرنے کی استدعا کر دی۔ 
کمرہ عدالت میں جج عطاء ربانی اور ملزم ظاہر جعفر کے درمیان مکالمہ ہوا۔ ملزم ظاہر جعفر نے انگریزی میں جج سے مخاطب ہو کر کہا ’مجھے آزادنہ طور پر بات کرنے کا موقع دیا جائے، میں 90 روز سے زیر حراست ہوں، عدالت کا کیا پلان ہے۔ فیصلہ کب آئے گا؟‘ 
جج عطاء ربانی نے کہا ’عدالت کا پلان نہیں ہوتا عدالتی کارروائی ہوتی ہے، آپ اپنے وکیل کے ذریعے بات کریں جو بھی ہوگا وہ آپ کو بتا دیں گے۔‘ 
ملزم ظاہر جعفر نے کہا کہ ’امریکی سفارتخانے نے مجھے وکیل فراہم کرنے پیشکش کی ہے اور ایک فہرست مجھے بھیجی ہے لیکن مجھے ابھی تک وہ فہرست نہیں ملی۔‘
دوران سماعت ملزمان کے وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 10 اے فیئر ٹرائل کا حکم دیتا ہے، فرد جرم عائد کرنے کے لیے سات روز کا وقت کم ہے چار ہفتوں کا وقت دیا جائے۔ 
درخواست میں کہا گیا کہ ملزم کو معلوم ہی نہیں کہ چالان کے ہمراہ اس کے خلاف کیا ثبوت ہیں، چیزیں خفیہ رکھ کر فیئر ٹرائل کا حق پورا نہیں ہو سکتا۔ 
ملزمان کے وکیل نے کہا کہ فرانزک رپورٹ، سی سی ٹی وی فوٹیج اور دیگر ریکارڈنگز ہمیں فراہم کی جائیں۔ 
مدعی کے وکیل شاہ خاور نے عدلات کو بتایا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج، یو ایس بی اور دیگر ریکارڈنگ سیلڈ ہیں، اس لیے فراہم نہیں کی گئیں۔
عدالت نے تینوں درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے جمعرات تک کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔

شیئر: