Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کاٹ دے اس کے بال‘ خاتون پر تشدد کے الزام میں دو افراد گرفتار

صوبہ پنجاب میں راولپنڈی پولیس نے ایک خاتون پر تشدد کرنے اور ان کے بال کاٹنے کی کوشش کرنے پر دو افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔ 
راولپنڈی پولیس کے مطابق ’پولیس کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، تشدد کرنے والے دونوں ملزمان مرد و عورت کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘
پولیس کا کہنا ہے کہ ’راولپنڈی پولیس خواتین پر تشدد کے خلاف زیرو ٹالیرنس یقینی بنا رہی ہے۔ خواتین پر تشدد کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔‘
راولپنڈی پولیس کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ ان کے نوٹس میں ایک نجی ٹی وی پر ویڈیو نشر ہونے کے بعد آیا۔
ٹوئٹر اکاؤنٹ نے کیپیٹل پولیس افسر محمد احسن یونس سے منسوب ایک بیان میں کہا کہ ’راولپنڈی پولیس خواتین پر تشدد کے خلاف زیرو ٹالیرنس یقینی بنائی ہے۔‘
ویڈیو میں ہے کیا؟
یہ ویڈیو راولپنڈی کے ایک مقامی صحافی کی جانب سے ٹوئٹر پر شیئر کی گئی۔
اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک خاتون صوفے پر بیٹھی ہیں اور ایک مرد انہیں بار بار تھپڑ مارتا ہوا نظر آرہا ہے، ان کے بال کھینچ رہا ہے اور ہاتھ میں ایک قینچی پکڑ کر کھڑا ہے۔
ایک اور خاتون جو اس ویڈیو میں دیکھی جاسکتی ہیں مرد کو بار بار کہہ رہی ہیں کہ ’کاٹ دے اس کے بال۔‘
اور یہی خاتون دوسری خاتون کے منہ پر بار بار کسی جوتے یا چپل سے تشدد کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔

تشدد کا نشانہ بننے والی خاتون بار بار کہہ رہی ہیں کہ ’میں نے کچھ نہیں کیا۔‘
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی ادارے ’ہیومن رائٹس واچ‘ کے مطابق سال 2020 میں پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کے کیسز میں تقریباً 200 فیصد اضافہ ہوا تھا۔
اسی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کم عمری میں شادیوں کا مسئلہ پاکستان میں ایک انتہائی تشویشناک صورتحال اختیار کرگیا ہے اور ملک بھر میں 21 فیصد لڑکیاں اٹھارہ سال سے کم اور تین فیصد لڑکیاں 15 سال سے کم عمر میں شادی کے بندھن میں بندھ جاتی ہیں۔
گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے حکومت پاکستان کافی عرصے سے  نئے قوانین متعارف کروانے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم ان کوششوں میں انہیں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔
وفاقی حکومت کا ڈومیسٹک وائلنس بل قومی اسمبلی میں تو منظور ہوگیا تھا، لیکن سینیٹ میں حکومت کو مذہبی جماعتوں کی جانب سے اس بل پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے بعد اس بل کو اسلامی نظریاتی کونسل بھیج دیا گیا تھا۔
اسلامی ںظریاتی کونسل کی جانب سے بھی اس بل کی مخالفت کی گئی اور کہا گیا کہ اس بل میں تشدد کی جو تعریف بیان کی گئی ہے اس پر انہیں تحفظات ہیں اور اس بل کا کچھ مواد شریعت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔

شیئر: