Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور میں کورونا وبا کے دوران گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ

پولیس کو تشدد کی زیادہ تر فون کالز خواتین کی موصول ہوئی ہیں (فوٹو: پِکسابے)
کورونا وبا نے زندگی کے تمام شعبوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ جہاں کاروبار زندگی معطل ہوئے ہیں وہیں اس نے لوگوں کی نفسیات پر بھی گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ وبا کے دنوں میں گھریلو تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں تو خاص طور پر ایسے واقعات تواتر سے رپورٹ ہو رہے ہیں۔
اردو نیوز کو حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق صوبائی دارالحکومت میں پولیس کو رپورٹ ہونے والے واقعات کی تعداد ہر ماہ تین ہزار سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ ایمرجنسی ہیلپ لائن ون فائیو پر مئی میں آنے والی شکایات کی تعداد تین ہزار پچانوے ہے۔

 

سال 2020 کے شروع میں جب کورونا کی وبا نے پاکستان کا رخ نہیں کیا تھا تو جنوری کے مہینے میں گھریلو تشدد کے دو ہزار چھیانوے واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ سیف سٹی اتھارٹی کی جانب سے حاصل شدہ اعداد و شمار کے مطابق فروری میں ان واقعات کی تعداد دو تین سو تھی۔ تاہم مارچ ، اپریل اور مئی کے مہینوں میں شہر میں ان واقعات میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا اور ان تینوں مہینوں میں تین ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے۔
سیف سٹی اتھارٹی کے مینجنگ ڈائریکٹر راؤ سردار علی خان کے مطابق 'لاک ڈاؤن کے بعد کئی طرح کے جرائم میں کمی بھی دیکھنے میں آئی تاہم گھریلو تشدد کے واقعات میں ضرور اضافہ ہوا۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جب کورونا کی وبا ختم ہو گی تو اس کے بعد صحیح نتیجہ اخذ کیا جا سکے گا کہ ان واقعات میں وبا کے اثرات کتنے ہیں۔'
 

ماہرین کے مطابق مشترکہ خاندانی نظام گھریلو تشدد کی وجہ ہو سکتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

راؤ سردار علی خان کے مطابق زیادہ تر فون کالز خواتین کی طرف سے موصول ہوئی ہیں۔ 'چونکہ اب یہ شکایت کا نظام کئی محکموں کے ساتھ مربوط ہو چکا ہے اس لیے ہر شکایت کی موصولی کے بعد متعلقہ ادارے جن میں پولیس اور خواتین کی بہبود کا ادارہ شامل ہے موقع پر پہنچے ہیں اور صورت حال کے مطابق شکایت کا ازالہ کیا گیا ہے۔'
 
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ہر واقعے کی نوعیت دوسرے سے مختلف ہوتی ہے، تاہم زیادہ تر واقعات میں فریقین آپس میں صلح کر لیتے ہیں۔ اگر واقعے کی نوعیت جسمانی تشدد سے متعلق ہو تو متاثرہ فریق کی مرضی کے مطابق مزید قانونی چارہ جوئی بھی ہوتی ہے۔

ون فائیو پر مئی میں آنے والی شکایات کی تعداد تین ہزار پچانوے ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

بچوں کے خلاف واقعات میں بھی اضافہ:
 
پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے ہیومن رائٹس آف پاکستان کی ایک اعلٰی عہدیدار فرح ضیا نے ان اعداد و شمار سے متعلق اپنی رائے دیتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا کہ 'پوری دنیا میں وبا کے دنوں میں ہونے والے گھریلو تشدد کے واقعات میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے واقعات پر بھی ایچ آر سی پی کی نظر ہے اور ان واقعات کا ریکارڈ مرتب کیا جا رہا ہے۔'
 
انہوں نے کہا کہ ایسے بہت سے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں جن میں بچوں پر بھی تشدد سامنے آیا ہے۔ 'سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان واقعات میں طبقاتی فرق بھی بظاہر نظر نہیں آرہا۔

حالیہ مہنیوں میں بچوں پر بھی تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے (فوٹو: روئٹرز)

اگر غریب گھرانوں میں ایسے واقعات ہو رہے ہیں تو اسی طرح کی رپورٹس امیر گھروں سے بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ پڑھے لکھے افراد ہوں یا ان پڑھ گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہر طبقے میں دیکھنےکو مل رہا ہے۔'
فرح ضیا سمجھتی ہیں کہ 'ایک طرف تو اس کے نفسیاتی پہلو ہیں کہ اس سے پہلے لوگوں نے کبھی اتنے بڑے پیمانے پر اس طرح کی صورت حال کا سامنا نہیں کیا اور کبھی اتنے لمبے وقت کے لیے لوگ گھروں میں ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہے ہیں جس میں 24 گھنٹے ہی آپ کو مخصوص لوگوں کے ساتھ رہنا پڑے۔'
'مشترکہ خاندانی نظام اور چھوٹے گھر بھی اس کی ایک وجہ ہو سکتے ہیں، اسی طرح اس وبا نے لوگوں کو معاشی طور پر بھی کمزور کیا ہے یہ بھی ایک سبب کے طور پر گردانا جا سکتا ہے۔'

شیئر: