Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وادیِ گلوان سے جزیرہِ مرتبان تک ایک دلچسپ سفر

حقیقت میں ’شبان‘ اُس گلہ بان کو کہا جاتا تھا جو رات کے وقت مال مویشی کی دیکھ ریکھ پر مامور ہو۔ (فوٹو: اے ایف پی)
حسن کا پاسبان عشق، عشق کا پاسبان دل
دل کا ہے پاسبان ہوش، ہوش کا پاسباں کہاں
ارم لکھنوی کے اس شعر میں بہ تکرار موجود لفظ ’پاسبان‘ کا جُز اول ’پاس‘ حفاظت، حراست اور حرمت کے معنی رکھتا ہے جب کہ جُز دوم یعنی ’بان‘ کے معنی میں ’محافظ و مالک‘ داخل ہیں۔ اس معنی کے ساتھ ’بان‘ کو فیل بان، گریبان اور دربان وغیرہ میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
چوں کہ فارسی اور سنسکرت زبان کی اصل ایک ہی ہے اس لیے دونوں زبانوں میں بہت سے الفاظ مشترک ہیں۔ مثلاً زیر بحث فارسی لفظ ’بان‘ بصورت ’وان‘ بھی برتا جاتا ہے، اور یہی ’وان‘ سنسکرت میں بھی موجود ہے۔ اسے بطور لاحقہ ’بھگوان‘، پہلوان اور ’کوچوان‘ کے الفاظ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ 
اردو میں لفظ ’چرواہا‘ اور ’گڈریا‘ کا ایک مترادف ’گلہ بان‘ بھی ہے۔ اب اس ’گلہ بان‘ کو ذہن میں رکھتے ہوئے چین اور انڈیا کے درمیان جاری سرحدی تنازع کے مرکز ’وادی گلوان‘ کے نام پر غور کریں۔ آپ کو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی ’گلوان‘ درحقیقت ’گلہ بان‘ ہی کی دوسری صورت ہے۔
وادیِ گلوان دراصل ’غلام رسول گلوان‘ سے موسوم ہے جس کی رہنمائی میں نہ صرف تاریخ میں پہلی بار انسانی قدم اس مقام تک پہنچے بلکہ اُس نے اس سفر کے دوران مہم جُو ٹیم کو موسم کی شدت کے ہاتھوں ہلاک ہونے سے بھی بچایا تھا۔ اس خدمت کے صلے میں ٹیم کے سربراہ نے اس وادی اور یہ بہنے والے دریا کو ’گلوان‘ سے منسوب کر دیا۔ یہ نام برسوں گمنامی میں رہنے کے بعد موجودہ سرحدی تنازع کے نتیجے میں ایک بار پھر دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔
دراصل ’گلوان‘ ایک قوم کا نام ہے کشمیر اور اس سے ملحقہ علاقوں میں آباد یہ قوم گھوڑے اور مویشی وغیرہ پالتی ہے اور ’گلہ بان‘ ہونے کی نسبت سے ’گلوان‘ کہلاتی ہے۔ یوں ہم اس قوم کو ’بکروال‘ اور ’گجروں‘ کا ہم قبیلہ کہہ سکتے ہیں۔

اردو میں لفظ ’چرواہا‘ اور ’گڈریا‘ کا ایک مترادف ’گلہ بان‘ بھی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

فارسی کی رعایت سے اردو ’گلہ بان‘ کے مترادفات میں ’چوپان‘ اور ’شبان‘ بھی رائج ہیں۔ یہ دونوں الفاظ یعنی ’چوپان‘ اور ’شبان‘ درحقیقت ایک ہی لفظ کی دو صورتیں ہیں، مگر اس باہمی اشتراک سے قبل ’چوپان‘ کی کہانی سُن لیں۔
ایک مدت تک ’چوپان‘ کی اصل ’چوپایہ بان‘ کو سمجھتے رہے۔ وہ یوں کہ ’چو‘ کو ’چوپایہ‘ کی تخفیف جانا اور ’پان‘ کو ’بان‘ کی تبدیلی شدہ صورت سمجھا مگر اس لفظ کی اس خود ساختہ تعبیر کا ساتھ کسی قاموس اور فرہنگ نہیں دیا۔ یوں بعد تحقیق کے کُھلا کہ ’چوپان‘ اصلاً ’شبان‘ کی بدلی ہوئی صورت ہے۔
عام مشاہدہ ہے کہ حرف ’چ‘ اور ’ش‘ حسب موقع ایک دوسرے سے بدل جاتے ہیں، مثلاً  فارسی کا ’چای‘ یعنی ’چائے‘ اگر عربی میں ’شای‘ ہے، تو انگریزی کا ’چکن‘ عربی میں ’شکن‘ ہے۔ حروف کی اسی تبدیلی کے زیر اثر فارسی ہی میں ’شبان‘ کی دوسری صورت ’چوپان‘ ہوگئی ہے۔ 
اب اس ’شبان‘ پر غور کریں تو آپ کو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ ’شبان‘ کا پہلا جُز ’شب‘ ہے، جس کے معنی ’رات‘ کے ہیں۔ حقیقت میں ’شبان‘ اُس گلہ بان کو کہا جاتا تھا جو رات کے وقت مال مویشی کی دیکھ ریکھ پر مامور ہو۔ بعد میں اس لفظ میں وسعت پیدا ہوئی اور رات کی شرط جاتی رہی۔ یوں ’شبان‘ لفظ ’گلہ بان‘ کا مترادف ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ آگے بڑھیں ’شبان‘ کی رعایت سے علامہ اقبال کا شعر ملاحظہ کریں:
اگر کوئی شعیب آئے میَسّر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے
خیر ذکر تھا ’شبان‘ کا جس کے متعلق آپ پوچھ سکتے ہیں کہ رات کا چوکیدار اگر ’شبان‘ ہے تو پھر دن کا نگہدار کیا کہلاتا ہے؟ عرض ہے کہ ’شبان‘ کے برخلاف دن میں نگرانی کا فریضہ انجام دینے والا ’روز بان‘ کہلاتا ہے۔  

وادیِ گلوان دراصل ’غلام رسول گلوان‘ سے موسوم ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

لفظ ’بان‘ کے لاحقے سے تشکیل پانے والے الفاظ میں ’مرتبان‘ بھی داخل ہے۔ اچار، چٹنیوں، مربوں اور معجونوں کو بحفاظت رکھنے والا یہ برتن آج تمدنی تبدیلیوں کے نتیجے میں معدومی کے خدشے سے دوچار ہے۔ بعید نہیں کہ کچھ مدت بعد یہ گھروں میں ناپید ہوجائے اور فقط ’لوک ورثہ‘ ہی میں نظر آئے۔
مرتبان میں چیزوں کے تادیر محفوظ رہنے کو ’منصور آفاق‘ کے مصرع سے بھی سمجھا جاسکتا ہے، ’مرتبان میں شاید بند ہیں ملال اپنے۔‘
لفظ ’مرتبان‘ کی اصل کی تلاش میں فارسی و اردو لغت نویسوں نے خوب گھوڑے دوڑائے ہیں، مگر اکثر خالی ہاتھ آئے ہیں۔ فارسی زبان کے سب سے بڑے لغت، ’لغت نامہ دہخدا‘ کے مؤلف ’علی اکبر دہخدا‘ اس ’مرتبان‘ کو اعلیٰ معیار کی چینی مٹی سے بنا ظرف بتاتے ہیں اور اس کی ہیئت اور استعمال بیان کرنے کے علاوہ لکھتے ہیں کہ ’آن زہر نمی تواند بگذرد‘ یعنی مرتبان میں زہر کا گزر نہیں ہے۔ 
مرتبان میں زہر کے بے اثر ہونے کا تذکرہ ایک اور جگہ ان الفاظ میں ملتا ہے۔ ’ایک خاص قسم کا روغنی برتن جس میں کوئی زہریلی چیز ڈالنے سے زہر کا اثر جاتا رہتا تھا۔ اس کا ذکر الف لیلا میں آتا ہے۔‘
’علی اکبر دہخدا‘ نے ہندوستان میں مرتب ہونے والی مشہور فارسی فرہنگ، ’فرہنگِ آنند راج‘ کے حوالے سے چکنی مٹی کے اس برتن کی نسبت ہندوستان کے جزائر میں ایک ’جزیرہ مرتبان‘ کی جانب کی ہے اور لکھا ہے کہ یہ جزیرہ مٹی کے ظروف بنانے کے حوالے سے مشہور ہے۔ جزیرہ مرتبان سے نسبت ہی کی بنیاد پر خود اس ظرف کا نام بھی ’مرتبان‘ پڑ گیا ہے۔

بعض ماہرین زبان کے مطابق لفظ ’مرتبان‘ سنسکرت کے ’امرتوان‘۔۔۔ (امرت وان) کی بگڑی صورت ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری جانب مولوی فیروزالدین نے اس جزیرے کو برہما یعنی برما (موجودہ میانمار) کے جنوب میں واقع بتایا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ برما (میانمار) کے جنوب میں ’مرتبان‘ نام کی خلیج واقع ہے اور ممکن ہے اسی ’خلیجِ مرتبان‘ میں کوئی ’جزیرہِ مرتبان‘ بھی ہو۔ تاہم برما کے کسی بھی جزیرے کی ظروف سازی کے حوالے سے شہرت محلِ نظر ہے۔
خیر مرتبان کے اس تذکرے کواب سمیٹتے ہیں اور سنسکرت سے رجوع کرتے ہیں، کیوں کہ بعض ماہرین زبان کے مطابق لفظ ’مرتبان‘ سنسکرت کے ’امرتوان‘۔۔۔ (امرت وان) کی بگڑی صورت ہے۔ جب کہ ’امرتوان‘ کے معنی ’ظرفِ آب حیات‘ کے ہیں۔
ہمارا خیال  ہے کہ مرتبان میں کھانے کی مخصوص اشیاء کا زیادہ مدت تک قابل استعمال رہ جانا ہی اس کے ’امرت وان‘ کہلانے کی وجہ ہے، چوں کہ مرتبان میں موجود اشیاء فوری خراب ہوکر زہریلے اثرات پیدا نہیں کرتیں اس لیے اس میں ’زہر کے بے اثر‘ ہونے کا تصور پیدا ہوگیا ہوگا۔

شیئر:

متعلقہ خبریں