Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف بلوچستان اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش

بلوچستان اسمبلی میں وزیراعلیٰ جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی گئی۔ عدم اعتماد کی تحریک بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما سردار عبدالرحمان کھیتران نے پیش کی۔ 
بلوچستان اسمبلی حکومتی اور اپوزیشن کے 33 ارکان نے عدم اعتماد کی قرارداد پیش کرنے کی اجازت دینے کے حق میں کھڑے ہوکر ووٹ دیا۔ 
سپیکر اسمبلی کچھ دیر بعد میں قرارداد پر ووٹنگ کا دن مقرر کریں گے۔ 
سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ اصولاً فیصلہ ہو گیا ۔ایوان کا اعتماد اٹھ گیا، جام کمال کو فوری طور پر سٹیپ ڈاؤن کر دینا چاہیے۔ اس میں ان کی بھی عزت ہے ہماری بھی عزت ہے۔
اس سے قبل وزیراعلیٰ جام کمال اور مخالفین دونوں جانب سے ارکان کی اکثریت کی حمایت کا دعویٰ کیا جا رہا ہے تاہم اسمبلی اجلاس سے پہلے منگل کی رات کو جام مخالف ارکان نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر سپیکر عبدالقدوس بزنجو کی رہائش گاہ پر عشائیے میں بظاہر اپنی اکثریت کا مظاہرہ کیا۔
اس تقریب میں بلوچستان اسمبلی کے 65 میں سے 36 ارکان اسمبلی نے شرکت کی۔
جام مخالف گروپ کی جانب سے بلوچستان عوامی پارٹی کے مقرر کردہ قائم مقام صدر ظہور احمد بلیدی کا کہنا ہے کہ ’ہمیں 40 ارکان کی حمایت حاصل ہے، وزیراعلٰی نے استعفیٰ نہ دیا تو انہیں اکثریت سے نکال دیں گے۔‘
بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی آرگنائزر سابق وزیراعلٰی جان محمد جمالی نے اس موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’گیم از اوور! جام صاحب کو خود ادراک کرنا چاہیے، عزت اسی میں ہے کہ چلے جائیں۔‘
تاہم جام کمال خان نے مستعفی ہونے سے انکار کرتے ہوئے آخر تک مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعلیٰ کے ترجمان لیاقت شاہوانی کا بھی کہنا ہے کہ ’اکثریت اب بھی جام کمال کے ساتھ ہے۔‘
ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں لیاقت شاہوانی کا کہنا تھا کہ ’وزیراعلٰی بلوچستان جام کمال استعفیٰ نہیں دیں گے۔تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز اسمبلی فلور پر ہماری اکثریت ثابت ہوجائے گی۔‘
جام کمال اور ان کے مخالفین اپنے اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے تو بلوچستان اسمبلی کی تاریخ میں پہلی بار ہوگا کہ کسی وزیراعلٰی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی میں پیش اور اس پر رائے شماری ہوگی۔
اس سے پہلے 2018 میں ثناء اللہ زہری اور 1998 میں سردار اختر مینگل نے تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں پیش ہونے سے پہلے ہی وزارت اعلٰی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

بلوچستان اسمبلی کے 65 رکنی ایوان میں وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے سادہ اکثریت یعنی 33 ارکان کی ضرورت ہے (فائل فوٹو: آن لائن)

سنہ 2018 کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان میں جام کمال خان کی سربراہی میں مخلوط حکومت قائم ہوئی تھی جس میں بلوچستان عوامی پارٹی 24 ارکان صوبائی اسمبلی کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بنی۔
تحریک انصاف سات ارکان کے ساتھ دوسری بڑی، عوامی نیشنل پارٹی چار ارکان کے ساتھ تیسری بڑی جماعت ہے۔
دو دو ارکان اسمبلی رکھنے والی ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی بھی ابتدا سے حکومتی اتحاد کا حصہ بنی۔
جمہوری وطن پارٹی سے تعلق رکھنے والے نواب اکبر بگٹی کے پوتے نواب زادہ گہرام بگٹی بھی حکومت کا حصہ ہیں۔
بلوچستان اسمبلی کے 65 میں سے 40 ارکان پر مشتمل اس حکومتی اتحاد میں چھوٹے اختلافات تو شروع سے ہی تھے تاہم اس میں گذشتہ ماہ کے وسط میں اس وقت شدت آگئی جب حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے وزیراعلیٰ جام کمال خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی میں جمع کرائی گئی۔ وزیراعلیٰ کی اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے بعض ارکان نے جام کمال سے استعفے کا مطالبہ کردیا۔


جام کمال نے 2018 کے عام انتخابات کے بعد بطور وزیراعلٰی عہدے کا حلف اٹھایا تھا (فائل فوٹو: ڈی جی پی آر بلوچستان)

اتحادی جماعت بی این پی عوامی نے بھی وزیراعلٰی سے راہیں جدا کرلیں۔تحریک انصاف کے ایک رکن نصیب اللہ مری بھی کھل کر وزیراعلیٰ کی مخالفت میں سامنے آئے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے 24 ارکان میں سے آدھے ارکان جام مخالف کیمپ میں چلے گئے ہیں۔ا ن میں سپیکر عبدالقدوس بزنجو، سابق وزیر خزانہ ظہور احمد بلیدی، سابق وزیراعلٰی جان محمد جمالی اور سردار صالح محمد بھوتانی شامل ہیں۔
سابق صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیران،سابق مشیر اکبر آسکانی، سابق مشیر محمد خان لہڑی، سکندر عمرانی، لالہ رشید، خواتین ارکان بشریٰ رند، لیلیٰ ترین اور ماہ جبین شیران بھی جام کمال کے خلاف ہیں۔
وزیراعلٰی جام کمال پر عہدے سے الگ ہونے کے لیے دباؤ ڈالنے کی غرض سے ناراض گروپ کے تین وزرا، دو مشیروں اور چار پارلیمانی سیکریٹریوں نے احتجاجاً اپنے عہدوں سے استعفے دے دیے۔
اس کے باوجود جام کمال وزارت اعلٰی سے الگ نہ ہونے کے فیصلے پر ڈٹے رہے۔ اس دوران پارٹی صدارت پر بھی تنازع کھڑا ہوا۔ جام کمال نے پہلے پارٹی صدارت چھوڑنے کا بیان دیا اور پھر فیصلہ واپس لیا جبکہ مخالف گروپ نے ظہور احمد بلیدی کو قائم مقام صدر نامزد کردیا۔
وزیراعلٰ سے استعفیٰ لینے میں ناکامی پر بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض گروپ کے 11 ارکان نے ایک ہفتہ قبل بی این پی عوامی کے دو اور تحریک انصاف کے ایک رکن اسمبلی کے ساتھ مل کر ایک ہفتہ قبل آئین کی شق 136کے تحت وزیراعلٰی کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد جمع کرائی جسے آج شام چار بجے بلوچستان اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

شیئر: