کالعدم تحریک لبیک پاکستان کا ’لانگ مارچ‘ مریدکے پہنچ گیا۔ ٹی ایل پی کے ترجمان کے مطابق کارکناں رات مریدکے میں ہی گزاریں گے۔
دوسری طرف کالا شاہ کاکو میں مڈھ بھیڑ کے بعد انتظامیہ نے پولیس کو جلوس کے راستے سے ہٹا لیا ہے۔ مریدکے میں جی ٹی روڈ پر رکھے گئے کنٹینرز کو کارکنوں نے رستے سے ہٹا لیا ہے۔
مریدکے میں مقامی صحافی محمد حمید کے مطابق ٹی ایل پی کے کارکنان نے جی ٹی روڈ کو کسی بھی طرح کی ٹریفک کے لیے روک دیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
تحریک لبیک پر پابندی ملکی سیاست پر کس طرح اثرانداز ہوگی؟Node ID: 557706
-
تحریک لبیک کا جمعے کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلانNode ID: 611136
-
لاہور میں تحریک لبیک پاکستان کے لانگ مارچ پر پولیس کی شیلنگNode ID: 611376
انہوں نے بتایا ’وہ صحافیوں کو کوریج بھی نہیں کرنے دے رہے بلکہ ایک مقامی صحافی کو زدو کوپ کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ جبکہ لوکل پولیس بالکل ہی غائب ہے۔‘
’پولیس نے جاتے ہوئے کھڑے کنٹینرز کا مٹی سے بھر دیا جس کو ٹی ایل پی کے کارکنان کے کدالوں سے خالی کر کے کنٹینر راستے سے ہٹا دئیے۔ اس مے بعد سے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ رات ادھر ہی گزاریں گے۔‘
جبکہ حکومت کی طرف سے وزیر داخلہ شیخ رشید لاہور میں موجود ہیں اور جیل میں قید ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی سے بیک ڈور مذکرات بھی جاری ہیں۔ پنجاب کی وزارت داخلہ کے ایک اعلی افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ جیل میں ایک حکومتی وفد کی سعد رضوی ایک طویل ملاقات ہوئی ہے۔
قبل ازیں وزیر داخلہ شیخ رشید احمد وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر لاہور پہنچے تھے جہاں انہوں نے امن و امان کی صورتحال پر وفاقی و صوبائی وزرا اور پنجاب کے چیف سیکرٹری و آئی جی کے اجلاس کی صدارت کی۔
لاہور پولیس نے ٹی ایل پی کے کارکنوں سے جھڑپوں میں زخمی ہونے والے 44 پولیس اہلکاروں کی فہرست بھی جاری کی تھی جو مختلف ہسپتالوں میں زیرِعلاج ہیں۔

کالعدم تحریک لبیک کے ترجمان سجاد سیفی نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ ان کا قافلہ جی ٹی روڈ پر رواں دواں ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں ان کے چھ کارکن ہلاک اور 70 زخمی ہوئے ہیں۔
وفاقی وزرا کی لاہور میں موجودگی کے حوالے سے سجاد سیفی نے کہا کہ ’ہم نے کب مذاکرات سے انکار کیا ہے، ہم تو مارچ شروع کرنے سے قبل حکومت کو کہہ رہے تھے کہ آئیں ہم سے بات کریں۔ ہم نے اب بھی حکومت سے مذاکرات سے انکار نہیں کیا۔‘
دوسری جانب پولیس نے رکاوٹیں لگا کر جی ٹی روڑ کو بھی جگہ جگہ سے بند کیا ہواہے۔ سپیشل برانچ کے مطابق مارچ کے شرکا کی کل تعداد سات ہزار کے لگ بھگ ہے جبکہ انٹیلیجنس بیورو یہ تعداد دس ہزار کے قریب بتا رہا ہے۔
لاہور پولیس نے سب سے مضبوط حصار شاہدرہ اور دریائے راوی کے پل پر بنا رکھا تھا جسے کالعدم تنظیم کے کارکنان توڑ کر اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے۔ اس سے پہلے آئی جی پولیس نے یہ بیان دیا تھا کہ ٹی ایل پی کسی بھی صورت لاہور سے نہیں نکلنے دیا جائے گا۔
سنیچر کی صبح لانگ مارچ کے شرکا اور پولیس کے درمیان لاہور کے آزادی چوک اور خارجی راستوں پر ایک بار پھر تصادم ہوا۔
جمعے کی رات گئے ٹی ایل پی کی قیادت نے آزادی چوک میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ سنیچر کی صبح دوبارہ اسلام آباد کی طرف مارچ کا آغاز کیا جائے گا۔
صبح چھ بجے جیسے ہی مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تو پولیس نے پیش قدمی روکنے کے لیے آنسو گیس کے شیل فائر کیے۔
جمعے کی رات پولیس اور تحریک لبیک کے درمیان ایم اے او کالج سےداتا دربار تک کا علاقہ میدان جنگ بنا رہا۔ پولیس نے جلوس کی پیش قدمی روکنے کے لیے آنسو گیس استعمال کی۔
پانچ گھنٹے کی کوششوں کے بعد جلوس کے شرکا آزادی چوک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ پولیس نے آزادی چوک کے اردگرد بھی کنٹینرز لگا کر راستے بند کر رکھے ہیں۔

دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اپنا دورہ متحدہ عرب امارات مختصر کر کے سنیچر کی صبح دبئی سے پاکستان واپس پہنچے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے انہیں ملکی صورت حال کے پیش نظر وطن واپس آنے کی ہدایت کی تھی۔
شیخ رشید احمد ٹی20 ورلڈ کپ میں پاکستان اور انڈیا کا میچ دیکھنے کے لیے جمعے کو دبئی روانہ ہوئے تھے۔
کالعدم تحریک لبیک کا مارچ، جمعے کے روز کیا ہوا؟
جمعے کے روز کالعدم تنظیم تحریک لبیک پاکستان کا لاہور سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ روکنے کے لیے پولیس نے شیلنگ کی۔
پولیس شیلنگ کے نتیجے میں متعداد افراد کے زخمی ہوگئے جبکہ ترجمان لاہور پولیس کے مطابق ’اس تصادم میں دو پولیس اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔‘
ترجمان لاہور پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ایک تھانہ گوال منڈی کے ہیڈ کانسٹیبل ایوب جبکہ دوسرے میو گارڈن چوکی کے کانسٹیبل خالد جاوید ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ دونوں پولیس اہلکاروں کو گاڑی کے نیچے کچل کر ہلاک کیا گیا تاہم کالعدم تحریک لبیک نے اس کی تردید کی۔ دوسری جانب کالعدم تحریک لبیک نے بھی اپنے دو کارکنوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا۔
کالعدم تحریک لبیک پاکستان نے جمعے کو لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا تھا۔ ان کے دو بنیادی مطالبات میں سے ایک فرانسیسی سفیر کی ملک بدری ہے اور دوسرا جماعت کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی ہے۔
جمعے کے روز ہی تحریک لبیک نے حکومت کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے کا اعلان کرنے کے بعد سکیم موڑ سے مارچ کا آغاز کیا۔

یاد رہے تحریک لبیک کے کارکنان تین روز سے سکیم موڑ اپنے مرکز کی مسجد کے باہر دھرنا دیے بیٹھے تھے اور پولیس نے دھرنے کے اطراف میں سڑکوں کو کنٹینرز لگا کر بند کر رکھا تھا۔
لبیک کے کارکنوں نے کنٹینر ہٹا کر جی ٹی روڈ کی طرف مارچ شروع کیا۔ ابتدا میں پولیس نے مارچ میں رکاوٹ نہیں ڈالی البتہ ایم اے او کالج کے قریب پہنچنے پر پولیس نے شیلنگ شروع کردی۔
کالعدم تحریک لبیک اور پولیس کے درمیان یہ تصادم کئی گھنٹے جاری رہا اور مارچ کے شرکا نے ایم اے او کالج کے سامنے رکھے کنٹینرز بھی ہٹادیے۔
تحریک لبیک پاکستان کے مرکزی ترجمان سجاد سیفی نے اردو نیوز کے نامہ نگار روحان احمد کو بتایا تھا کہ ’تحریک لبیک کے مارچ کے شرکا پر داتا دربار کے قریب پولیس نے شیلنگ کی جس کے باعث ہمارے متعدد کارکنان زخمی ہوگئے۔‘
دوسری جانب جمعے کی رات گئے تحریک لبیک کے مارچ کو داتا دربار سے روانہ ہونے کے بعد آزادی چوک بالمقابل مینار پاکستان روک دیا گیا۔
