Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عبدالقدوس بزنجو بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کے عہدے کے لیے نامزد

عبدالقدوس بزنجو کے والد عبدالمجید بزنجو بھی 1985، 1988 اور 1990ء میں رکن بلوچستان اسمبلی رہ چکے ہیں۔ فائل فوٹو: اے پی پی
جام کمال خان کی جانب سے وزارت اعلیٰ سے مستعفی ہونے کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) نے صوبے کے نئے وزیراعلیٰ کے لیےعبدالقدوس بزنجو کے نام پر اتفاق کر لیا ہے۔
عبدالقدوس بزنجو نے سپیکر بلوچستان اسمبلی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے قائمقام صدر ظہور احمد بلیدی اور ترجمان سردار عبدالرحمان کھیتران کے مطابق بی اے پی اور ان کے اتحادیوں نے قائد ایوان کے لیے عبدالقدوس بزنجو کے نام پر اتفاق کیا ہے اس لیے انہوں نے سپیکر کا عہدہ چھوڑ دیا۔ 
انہوں نے بتایا کہ عبدالقدوس بزنجو کے استعفے کے بعد نئے قائد ایوان کے انتخاب سے پہلے سپیکر کا انتخاب ہوگا تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ سپیکر کے لیے امیدوار کون ہوگا۔ پارٹی کے قریبی ذرائع کے مطابق نئے سپیکر کے لیے جان محمد جمالی مضبوط امیدوار ہیں جو پہلے بھی اس عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ 
عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ بلوچستان بنے تو یہ دوسری مرتبہ ہوگا کہ وہ کسی حکومت کا تختہ الٹ کر اس عہدے تک پہنچیں گے۔ اس سے پہلے 2018 کے اوائل میں ان کی قیادت میں ق اور ن لیگ کے ارکان نے تحریک عدم اعتماد جمع کراکر نواب ثناء اللہ زہری کو وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تھا۔ 

عبدالقدوس بزنجو کون؟

37 سالہ عبدالقدوس بزنجو کا تعلق بلوچستان کے ضلع آواران سے ہیں۔ انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی سے انگریزی میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ عبدالقدوس بزنجو پہلی مرتبہ 2002ء میں آواران سے مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ جام کمال کے والد جام محمد یوسف کی کابینہ میں وزیر امور حیوانات رہے۔ 2013ء میں دوسری مرتبہ مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر آواران سے صرف 544 ووٹ لے کر رکن اسمبلی بنے اس کے بعد انہیں ڈپٹی سپیکر بنایا گیا۔ 
جنوری 2018ء میں نواب ثناء اللہ زہری کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد عبدالقدوس بزنجو چھ ماہ تک بلوچستان کے وزیراعلیٰ رہے۔ 2018ء کے انتخابات سے قبل عبدالقدوس بزنجو اور جام کمال نے مل کر بلوچستان عوامی پارٹی تشکیل دی۔ 
عبدالقدوس بزنجو کے والد عبدالمجید بزنجو بھی 1985، 1988 اور 1990ء میں رکن بلوچستان اسمبلی رہ چکے ہیں۔ 
ادھرجام کمال خان کے استعفے کے بعد بلوچستان اسمبلی میں ان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد واپس لی گئی۔
عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت پیر کو ہونے والے اجلاس میں عدم اعتماد کی قرارداد پر رائے شماری ہونا تھی تاہم سپیکر نے اجلاس کو بتایا کہ وزیراعلیٰ نے آئین کی شق 138کی ذیلی شق 8 کے تحت استعفیٰ دے دیا ہے اور گورنر نے استعفیٰ منظور کرکے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا اس لیے عدم اعتماد کی قرارداد پر رائے شماری کا اب کوئی جواز نہیں رہتا۔ جس پر قرارداد کے محرک سردار عبدالرحمان کھیتران نے قرارداد واپس لے لی۔

بلوچستان عوامی پارٹی کی تشکیل جام کمال اور عبدالقدوس بزنجو نے کی تھی۔ فائل فوٹو: اے پی پی

جام کمال خان اور ان کے حامی ارکان اسمبلی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق جام کمال نے وزیراعلیٰ ہاؤس بھی خالی کر دیا۔ انہوں نے اپنے اہلخانہ کو بھی دو دن پہلے کراچی بھیج دیا تھا۔
جام کمال خان نے اپنی ہی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان کی جانب سے جمع کرائی گئی عدم اعتماد کی قرارداد پر رائے شماری سے پہلے منگل کی رات کو استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان کا استعفیٰ منظور ہونے کے بعد گیارہ وزراء اور پانچ مشیروں پر مشتمل بلوچستان کی کابینہ بھی تحلیل کر دی گئی۔
جام کمال خان صوبے کے چوتھے وزیراعلیٰ ہیں جنہیں تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا تاہم ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے انہوں نے عدم اعتماد کا سامنا کرنے کی بجائے استعفیٰ دے دیا۔
بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں سپیکر عبدالقدوس بزنجو نے رولنگ دی کہ گورنر اور چیف سیکریٹری بلوچستان موجودہ سیاسی بحران کے آغاز اور تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد سے سابق وزیراعلیٰ جام کمال کی جانب سے کیے جانے والے تقرر و تبادلے اور دیگر احکامات منسوخ کریں۔
سیاسی مبصرین سپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجوکو نئے وزیراعلیٰ کے لیے سب سے مضبوط امیدوار سمجھتے ہیں کیونکہ انہوں نے سب سے پہلے جام کمال کے خلاف محاذ کھولا اور تحریک عدم اعتماد پیش کرنے اور جام کمال کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرنے کے لیے بھی اہم کردار ادا کیا۔
اسمبلی اجلاس کے بعد عبدالقدوس بزنجو نے سپیکر کے عہدے سے باقاعدہ طور پر استعفیٰ دیتے ہوئے منظوری کے لیے گورنر بلوچستان کو ارسال کر دیا۔

سیاسی مبصرین سپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجوکو نئے وزیراعلیٰ کے لیے سب سے مضبوط امیدوار سمجھتے ہیں۔ فوٹو: اے پی پی

تحریک عدم اعتماد میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل حزب اختلاف کی جماعتیں جمعیت علمائے اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل بھی شامل تھیں۔ کیا حزب اختلاف کی جماعتوں کے ارکان اب حکومتی بنچوں پر بیٹھیں گے اورنئی حکومت میں کون سی جماعتیں شامل ہوں گی اس سوال پر بھی بحث کی جارہی ہے۔
صحافی وتجزیہ کار رشید بلوچ کا کہنا ہے کہ یہ بات تو طے ہیں کہ جام کی مخالفت میں پیش پیش رہنے والے ارکان اسمبلی خصوصاً عبدالقدوس بزنجو، سردار صالح محمد بھوتانی، ظہور احمد بلیدی، سردار عبدالرحمان کھیتران، جان محمد جمالی، اسد بلوچ، نصیب اللہ مری کو اہم عہدے اور وزارتیں دی جائیں گی۔
رشید بلوچ کے خیال میں حزب اختلاف کی جماعتیں نئے قائد ایوان کے انتخاب اور حکومت سازی کے عمل میں نئی حکومت کا ساتھ تو دیں گی تاہم وہ حکومت میں شامل نہیں ہوں گی۔ ان کے مطابق جام کمال کی حکومت میں شامل اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی کو شاید نئی حکومت میں حصہ نہ دیا جائے تاہم تحریک انصاف بدستور حکومت کا حصہ رہے گی۔
 بی اے پی کے ترجمان سردار عبدالرحمان کھیتران نے میڈیا نمائندوں سے گفتگو میں اس بات کی تائید کی کہ عدم اعتماد کے دوران محنت کرنے والوں کو زیادہ صلہ دیا جائے گا-
ان کا کہنا تھا کہ حکومت حزب اختلاف کی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلیں گی۔ پرانی حکومت میں شامل اتحادیوں سے رابطے کے لیے بھی کمیٹیاں تشکیل دی جا رہی ہیں۔ 

شیئر: