Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سنگین الزامات کے باوجود فیس بک کو نو ارب ڈالر کا منافع

فرانسس ہاؤگن نے الزام لگایا تھا کہ فیس بک کو لوگوں سے زیادہ اپنا مفاد عزیز ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک نے اعلان کیا ہے کہ اس کا اس سہ ماہی کا منافع نو ارب ڈالر سے زائد ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فیس بک نے سوموار کو کہا ہے کہ اس کے منافعے میں 17 فیصد اضافہ ہوا ہے اور اس کے صارفین کی تعداد بھی بڑھ کر دو ارب نوے کروڑ ہوگئی ہے۔
تاہم فیس بک کو ایک سابق اہلکار فرانسس ہاؤگن کی جانب سے ایک نئے بحران کا سامنا ہے۔
فرانسس ہاؤگن نے فیس بک پر الزام لگایا تھا کہ فیس بک کے عہدیداروں کو ممکنہ نقصانات کا علم ہے۔
نئی رپورٹس میں فیس بک کو ویتنام میں ریاستی سنسر کے سامنے جھکنے کے الزام کا بھی سامنا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ فیس بک نے لسانی مسائل کی وجہ سے نفرت انگیز تقریر کو بین الاقوامی سطح پر پنپنے کی اجازت دی۔
امریکی سینیٹر رچرڈ بلومینتھل نے کہا ہے کہ ان رپورٹس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ فیس بک کے عہدیداروں نے اندرونی خدشات کو نظر انداز کیا اور لوگوں پر منافع کو ترجیح دی۔
دی نیو یارک ٹائمز، دی واشنگٹن پوسٹ ایسے نیوز آرگنائزیشن میں شامل ہیں جن کو فیس بک کے اندرونی دستاویزات تک رسائی حاصل ہے۔ یہ دستاویزت فرانسس ہاؤگن نے امریکی حکام کو لیک کی تھیں۔
ان دستاویزات کے شائع ہونے کے بعد فیس بک کو تنقید کا سامنا ہے۔
فرانسس ہاؤگن نے الزام لگایا تھا کہ فیس بک کو لوگوں سے زیادہ اپنا مفاد عزیز ہے اور کمپنی یہ بھی جانتی ہے کہ فیس بک اور انسٹا گرام کو کیسے محفوظ بنایا جائے تاہم وہ ضروری تبدیلیاں نہیں کرنا چاہتی۔
فرانسس ہاؤگن نے کہا تھا کہ یہ سوشل میڈیا کمپنی جانتی ہے کہ اس کے استعمال سے نفرت آمیز مواد کو فروغ مل رہا ہے اور بچوں کی ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
انہوں نے یہ دستاویزات نام ظاہر کیے بغیر امریکی قانون سازوں اور وال سٹریٹ جرنل نامی جریدے کے ساتھ شیئر کی تھیں۔
تاہم انہوں نے رواں مہینے کے آغاز میں سی بی ایس کے شو میں اپنی شناخت ظاہر کی تھی۔
فرانسس ہاؤگن کے اپنی شناخت ظاہر کرنے سے قبل امریکی سینیٹر رچرڈ بلومنتھال نے اس بارے میں ایک بیان میں کہا تھا کہ فیس بک کے اقدامات صاف واضح کرتے ہیں کہ اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنی نگرانی خود کرے۔
'ہمیں سخت نگرانی کی ضرورت ہے۔'

شیئر: