Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت اور ٹی ایل پی کے ’خفیہ معاہدے‘ کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

پاکستان کی حکومت اور کالعدم تنظیم تحریک لبیک کے درمیان ملک میں جاری احتجاج کے خاتمے اور صورت حال کو معمول پر لانے کے لیے ایک بار پھر معاملات تو طے پا گئے ہیں تاہم تحریک لبیک کا کہنا ہے کہ معاہدے پر دستخط سٹیئرنگ کمیٹی کی جانب سے اس کو حتمی شکل دینے کے بعد ہی کیے جائیں گے۔
دوسری جانب سیاسی تجزیہ کاروں اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کسی بھی حکومت کی جانب سے کیا جانے والا پہلا خفیہ معاہدہ ہے۔ ایسے معاہدوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی تاہم حکومت اخلاقی طور پر عمل در آمد کرنے کی پابند ہوتی ہے۔
تحریک لبیک کے وجود میں آنے اور نیا طرز احتجاج متعارف کرانے کے بعد اب تک حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان چار معاہدے ہو چکے ہیں جن پر جزوی طور پر ہی عمل در آمد ہوا ہے۔
تحریک لبیک کے ایک ترجمان سید صدام بخاری کے مطابق ’موجودہ حکومت کے ساتھ طے پانے والے آخری معاہدے میں دو مرتبہ توسیع کی گئی تاہم عمل درآمد نہ ہوا اسی وجہ سے اسلام آباد کی طرف مارچ کا فیصلہ کیا گیا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’جس معاہدے کا ذکر گزشتہ روز مفتی منیب الرحمان نے کیا وہ معاہدہ نہیں بلکہ ایک معاہدے کا مسودہ ہے جس کو حتمی شکل دینے کے لیے سٹیئرنگ کمیٹی قائم کی گئی ہے جو اسے حتمی شکل دے گی۔ موجودہ مسودے میں کچھ قانونی پیچیدگیاں ہیں جنھیں سٹیئرنگ کمیٹی دور کرے گی اور پھر معاہدے پر دستخط ہوں گے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’معاہدے کے نکات ابھی پبلک نہیں کیے جا سکتے تاہم مستقبل میں احتجاج کا حق کسی صورت ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی کے معاہدوں کے برعکس اس معاہدے پر عمل در آمد کی یقین دہانی کسی اور جگہ سے ہوئی ہے اس لیے امید ہے کہ یہ بہتر اور ملکی مفاد میں ہوگا۔‘
یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت اور احتجاج کرنے والے کسی گروہ کے درمیان ہونے والے معاہدے کو خفیہ رکھا گیا ہے۔ سینیئر صحافی محمد ضیاء الدین کا کہنا ہے کہ ’اس معاہدے میں عمران حکومت بطور فریق شامل نہیں اس لیے اس معاہدے کو خفیہ رکھا گیا ہے۔‘

سٹیئرنگ کمیٹی طے پانے والے معاملات اور معاہدے کو حتمی شکل دے کر اس پر عمل درآمد کا طریقہ کار وضع کرے گی۔ فائل فوٹو: اے پی پی

انھوں نے کہا کہ ’مجھے نہیں یاد پڑتا کہ حکومت نے کبھی کسی فریق کے ساتھ کوئی معاہدہ کیا ہو اور اسے خفیہ رکھا ہو۔ ن لیگ دور میں بھی معاہدہ پبلک ہوا۔ یہاں تک کہ اے این پی کی صوبائی حکومت اور تحریک نفاذ شریعت محمدی کے درمیان معاہدے کو بھی عوام کے سامنے لایا گیا تھا۔‘
سینیئر قانون دان احمد رضا قصوری نے کہا کہ ’اس معاہدے کے خفیہ رکھنے سے جو تاثر سامنے آیا ہے اس سے حکومت کی کمزوری عیاں ہو رہی ہے۔ حکومتی وزراء کے الگ الگ موقف نے بھی حکومت کو نقصان پہنچایا۔ معاہدے کی تفصیلات پبلک نہ کرنا  عجوبے سے کم نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’حکومت اور کسی بھی احتجاجی گروپ کے درمیان ہونے والے ایسے معاہدوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ صرف اتنا ہوتا ہے کہ حکومت نے ایک معاہدہ کیا ہوتا ہے اور اس پر عمل در آمد کرنے سے اس کی ساکھ بہتر ہوتی ہے اور نہ کرنے سے اس کو سیاسی نقصان ہوتا ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں احمد رضا قصوری نے کہا کہ ’اس طرح کے احتجاج کے نتیجے میں درج کیے مقدمات کی مدعی عموماً ریاست ہوتی ہے اس لیے اس کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ مقدمات واپس لے سکے۔‘

سینیئر صحافی محمد ضیاء الدین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں عمران حکومت بطور فریق شامل نہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اس حوالے سے قانون دان اور سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’احتجاج کے نتیجے میں دو طرح کے مقدمات درج ہوتے ہیں جن میں کچھ مقدمات ریاست کے خلاف جرائم کے ہوتے ہیں جنھیں معاف کرنے کا حق ریاست کے پاس ہے۔ تاہم اگر کوئی قتل ہو جائے یا کسی کی ذاتی جائیداد گاڑی یا املاک کو نقصان پہنچایا جائے تو اسے معاف کرنے کا اختیار ریاست کے پاس نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس معاہدے میں کچھ مقدمات میں عدالتوں سے ریلیف لینے کی بات کی گئی ہے۔‘
دوسری جانب اس معاہدے کو حتمی شکل دینے اور اس پر عمل در آمد کے حوالے سے قائم سٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس پیر کی رات لاہور میں ہو رہا ہے۔ سٹیئرنگ کمیٹی گزشتہ روز طے پانے والے معاملات اور معاہدے کو حتمی شکل دے کر اس پر عمل درآمد کا طریقہ کار وضع کرے گی۔

شیئر: