پولیس ٹی ایل پی مارچ کو لاہور میں روکنے میں ناکام کیوں ہوئی؟
پولیس ٹی ایل پی مارچ کو لاہور میں روکنے میں ناکام کیوں ہوئی؟
جمعرات 28 اکتوبر 2021 17:28
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں کالعدم تحریک لبیک کا اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ جاری ہے اور پنجاب پولیس اپنی تمام تر طاقت کے باوجود اس مارچ کی پیش قدمی روکنے میں ناکام رہی ہے۔ مارچ کے پہلے ہی روز تنظیم کے کارکنوں نے پولیس کا پہلا حصار توڑ ڈالا۔
انٹیلی جنس ایجنسیز کی رپورٹس کے مطابق مارچ کے آغاز میں ٹی ایل پی کے کارکنوں کی تعداد پانچ ہزار سے بھی کم تھی جب کہ لاہور پولیس کی سکیورٹی منصوبہ بندی میں 10 ہزار پولیس اہلکاروں کو جلوس کی پیشقدمی روکنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
لاہورسے نکلتے ہوئے پولیس اور ٹی ایل پی کا بڑا تصادم دو مقامات پر ہوا، ایک ایم اے او کالج کے پاس اور دوسرا شاہدرہ اور کالا شاہ کاکو کے درمیان، اور دونوں ہی جگہوں پر پولیس کو پسپا ہونا پڑا۔
پولیس ٹی ایل پی کے کارکنوں کو روکنے میں کیوں ناکام ہوئی اس پر ڈیپمارٹمنٹ لیول پرانکوائری کی جارہی ہے، اور تمام ڈیوٹی پر مامور افسران سے رپورٹ مانگ لی گئی ہے۔
لاہور پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اردو نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’انکوائری تو کی جا رہی ہے لیکن اسے میڈیا سے خفیہ دور رکھا جا رہا ہے کیونکہ ابھی مارچ گوجرنوالہ تک پہنچا ہے اور اب بھی لاہور پولیس کی بھاری نفری وہاں موجود ہے تو اس لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ معاملے کا حتمی نتیجہ سامنے آنے تک حقائق کو خفیہ رکھا جائے گا۔‘
ٹی ایل پی کے مارچ کا اپنے سے دو گنا فورس کو ہٹا کر شہر سے باہر نکل جانے نے پولیس کارکردگی پر کئی طرح کے سوال کھڑے کیے ہیں۔ کیا معاملہ حکمت عملی کا ہے یا پھر نااہلی کا؟ پنجاب پولیس کے سابق آئی جی خالد خواجہ سمجھتے ہیں کہ اس میں کئی طرح کے فیکٹر ہیں۔
ان کے مطابق ’پہلی بات تو یہ ہے کہ لاہور پولیس پاکستان کے کسی بھی شہر سے زیادہ اور وسائل کے لحاظ سے بڑی فورس ہے اور اس کی تربیت بھی بہت بہتر ہے۔ میرے خیال میں اس دفعہ ان سے حکمت عملی کی سطح پر غلطی ہوئی ہے۔ جلوس کو نکلنے اور سنبھلنے کا وقت نہیں دینا چاہیے تھا۔ انہوں نے جلوس کو چار کلومیٹر نکلنے کے بعد روکا اور اس سے بھی اہم بات یہ تھی کہ بارہ ربیع الاول سے پہلے انٹیلی جنس ہونی چاہیے تھی کہ یہ معاملہ آگے بڑھ سکتا ہے تواس سے پہلے گرفتاریاں کرنی چاہیے تھیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’فرسٹ ٹیئر یعنی مرکزی قیادت پہلے ہی گرفتار ہے اب سیکنڈ اور تھرڈ ٹیئر کو بھی پہلے گرفتار کر لیا جاتا تو یہ مارچ سرے سے ممکن ہی نہیں تھا۔‘
روزنامہ ڈان کے وابستہ صحافی آصف چوہدری جو کہ ایک سینیئر کرائم رپورٹر ہیں، کے خیال میں ٹی ایل پی کے جلوس کا لاہور سے باہر نکل جانا فیصلہ سازی میں کوتاہی ہے۔
ان کے مطابق ’میں تو اس بارے میں بڑا کلیئر ہوں کہ وقت پر درست فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے اس وقت پورا پنجاب تقریباً یرغمال بنا ہوا ہے۔ لاہور پولیس کی کل تعداد 35 ہزار ہے اور اس فورس کو ایسی مذہبی تنظیم پر استعمال کرنا بھی بہت ضروری تھا جو کہ نہیں کیا گیا۔ اس دفعہ ٹی ایل پی والوں کی تیاری پولیس سے زیادہ لگ رہی ہے۔ انہوں نے آدھے لوگ مارچ شروع کرنے سے پہلے ہی نکال دیے تھے اور جب پولیس نے روکا تو پولیس کے پیچھے بھی دو ہزار لوگ حملہ آور تھے تو پولیس کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’محض حکمت عملی غلط ہونے کی وجہ سے پولیس کو پیچھے ہٹنا پڑاْ‘
سابق آئی جی خوالد خواجہ کہتے ہیں کہ ’آنسو گیس کے استعمال سے پولیس خود بھی اس کا شکار ہوتی ہے، آپ جتنی زیادہ گیس چلائیں گے اس سے آپ کے اپنے متاثر ہونے امکانات بھی اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں۔ آپ نے ماضی میں سیاسی جماعتوں کے بھی جلوس دیکھے پولیس سے مڈبھیڑ کے بعد بالاًخر جلوس نکل ہی آتے ہیں۔ مشرف دور کا وکلا لانگ مارچ دیکھ لیں، تیسرے گھنٹے میں پولیس غائب ہو گئی تھی۔‘
ان کے بقول ’پولیس پہلے تو بڑی طاقت سے روکتی ہے جیسے ہی آنسو گیس چلتی ہے تو پولیس کو خود بھی اس کے اثرات سے بچنے کے لیے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے اور یوں وہ حصار کمزور ہوجاتا ہے۔ میں پھر یہی کہوں گا کہ ایسے واقعات سے پہلے بھرپور تیاری کی جائے تو موقعے پر سنبھالنا آسان ہوتا ہے۔‘
ٹی ایل پی اس دفعہ مختلف ٹولیوں میں مارچ کر رہی ہے۔ یہ بات لاہور کے صحافی ہی نہیں بلکہ جی ٹی روڈ پر آنے والے شہروں کے صحافی بھی کر رہے ہیں۔
مرید کے کے مقامی صحافی حمید اللہ نے بتایا کہ ’لاہور کے بعد ٹی ایل پی کا پہلا بڑا ٹاکرا سادھوکی میں ہوا اور ہم وہاں موجود تھے۔ بہت بڑی تعداد میں پولیس لاہور سے اس جلوس کے پیچھے تھی اور اس بات کی خبر جلوس کی انتظایہ کو بھی تھی تو جیسے جیسے جلوس آگے جا رہا تھا جلوس کے پیچھے ٹی ایل پی والے خود کنٹینر لگا رہے تھے ان کے پاس دو کرینیں تھیں۔ جس وجہ سے لاہور پولیس سادھوکی آپریشن میں شریک ہی نہیں ہو سکی کیوںکہ وہ ٹی ایل پی کی طرف سے لگائی رکاوٹیں ہی ہٹاتے رہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کی پلاننگ پولیس سے بھی تیز ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ٹی ایل پی کی جارحانہ حکمت عملی ہر شہر اور ہر واقعے میں بدل رہی ہے۔ کہیں کارکن پولیس کے عقب سے حملہ آور ہو جاتے ہیں اور اگر کہیں پولیس عقب میں آجائے تو اس کا راستہ روکنے کے انتظامات بھی ان کے پاس پورے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک طاقت کے استعمال کے باوجود وہ گوجرانوالہ پہنچ چکے ہیں۔‘