Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چمن سرحد کھول دی گئی، ’تجارتی سرگرمیاں 24 گھنٹے جاری رہیں گی‘

پاکستان اور افغانستان کے درمیان چمن سپین بولدک مشترکہ سرحدی گزرگاہ کو تقریباً ایک ماہ بعد کھول دیا گیا۔
آمدورفت بحال ہونے پر باب دوستی پر دونوں جانب پھنسے ہوئے ہزاروں افراد کا ہجوم لگ گیا ہے۔
مقامی حکام کے مطابق سرحد کھولنےکا فیصلہ پیر کو افغان طالبان کے ساتھ فلیگ میٹنگ میں کیا گیا۔ اجلاس میں چمن کی ضلعی انتظامیہ، پاکستانی فورسز سمیت متعلقہ محکموں کے نمائندوں اور افغان طالبان کے سپین بولدک اور قندھار میں تعینات نمائندوں نے شرکت کی۔ 
میٹنگ کے فیصلے کے مطابق سرحد روازنہ پیدل آمدورفت کے لیے روزانہ آٹھ گھنٹے کھلی رہے گی اور دونوں جانب سرحدی علاقوں کے رہائشی کو بغیر ویزے آمدورفت کی اجازت دی جائے گی۔ 
علاج کے لیے پاکستان آنے کے خواہشمند افغان شہریوں کو بھی رعایت دی جائے گی جبکہ تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے گاڑیوں کی آمدورفت کے لیے مختص دورانیہ بھی بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 
چمن میں تعینات پاکستانی کسٹم حکام کا کہنا ہے کہ رات کے اوقات میں تجارتی سرگرمیوں کے لیے اضافی عملے کی تعیناتی سمیت دیگر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
کابل میں تعینات پاکستانی سفیر منصور احمد خان نے ٹوئٹر پر سرحد کھولنے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ چمن سپین بولدک سرحد سے تجارتی گاڑیوں اور لوگوں کی پیدل آمدروفت شروع ہوگئی ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ’ہم افغانستان سے آنے والی پھلوں سے لدی گاڑیوں کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں۔‘
پاکستانی سفیر نے دونوں اطراف کے متعلقہ حکام پر زور دیا کہ ’وہ لوگوں اور تجارتی گاڑیوں کی ہموار نقل و حرکت کو یقینی بنانے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کریں۔‘
خیال رہے کہ چمن بارڈر پانچ اکتوبر کو افغان طالبان نے رکاوٹیں کھڑی کرکے احتجاجاً بند کر دیا تھا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ افغان شہریوں خصوصاً پاکستان سے ملحقہ سرحدی صوبے قندھار کے رہائشیوں اور افغان مریضوں کو بلا روک ٹوک اور بغیر قانونی دستاویزات کے پاکستان میں داخلے کی اجازت دی جائے۔ 
پاکستان اور افغانستان کے درمیان اس معاملے پر اعلیٰ اور نچلی سطح پر کئی بار مذاکرات ہوئے تاہم کامیاب نہ ہوسکے۔ 
سرحد بند ہونے سے دونوں جانب ہزاروں افراد پھنس گئے تھے جبکہ تجارتی سامان سے لدی گاڑیاں روکے جانے سے تاجروں کو بھی روزانہ کروڑوں روپے کا نقصان ہورہا تھا۔ 

سرحد کی بندش کی وجہ سے پیدل آمدورفت بھی معطل ہوئی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

چمن کی ضلعی انتظامیہ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’افغان طالبان سے کئی سطح پر مذاکرات ہوئے جس میں چند شرائط مان لی گئی ہیں۔ پاکستان کو آزادانہ نقل و حرکت پر اعتراض ہے اور اس سے متعلق تحفظات سے آگاہ کیا گیا۔‘
افغان صوبے قندھار کے گورنر کے دفتر سے جاری ہونے ہونے والے ایک بیان کے مطابق صوبہ قندھار کے رہائشیوں کو اور مریضوں کو بغیر ویزے کے صرف افغان شناختی کارڈ ’تذکرہ‘ کی بنیاد پر پاکستان میں داخلے کی اجازت ہوگی جبکہ باقی افغان شہری پاسپورٹ پر آجاسکیں گے۔ 
بیان میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’سرحد تجارتی سرگرمیوں کے لیے 24 گھنٹے کھلی رہے گی۔‘
فلیگ میٹنگ میں شریک چمن چیمبر آف کامرس کے صدر محمد ہاشم نے اردو نیوز کو بتایا کہ اجلاس مثبت اور نتیجہ خیز رہا اور سرحد پر پیدل آمدروفت کے ساتھ باہمی تجارت میں آسانیوں کے لیے اقدامات اٹھانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ 
دونوں ممالک نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ مریضوں اور سرحدی علاقوں کے تاجروں اور مزدوروں کے پیدل آمدروفت کے لیے الگ اوقات اور آنے جانے والی تجارتی گاڑیوں کے لیے الگ الگ راستے مقرر کیے جائیں گے۔ 
انہوں نے کہا کہ ’سرحد کی بندش سے تاجر غیر یقینی کا شکار ہیں۔ اس بار چار ہفتوں تک سرحد بند رہی۔ تاجروں کو کنٹینرز کے کرایے اور مال خراب ہونے سمیت مختلف وجوہات کی بنا پر روزانہ پندرہ کروڑ روپے کا نقصان ہورہا تھا۔ ٹیکس جمع نہ ہونے سے ملکی خزانے کا نقصان اس کے علاوہ ہے۔‘

سرحد کھلنے پر ایک ماہ سے پھنسے پاکستانی و افغان باشندوں نے بھی خوشی کا اظہار کیا ہے۔ (فوٹو اے ایف پی)

تاجر رہنما کے مطابق ’افغانستان میں انار اور انگور کی فصلیں کاشت کرنے اور اس کی تجارت کرنے والوں کو سب سے زیادہ نقصان ہوا کیونکہ فصل تیار ہونے کے بعد سرحد کی بندش سے ان کی سال بھر کی محنت ضائع ہوگئی۔ جبکہ پاکستان میں ان پھلوں اور خشک میوہ جات کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں۔‘
دوسری جانب سرحد کھلنے پر ایک ماہ سے پھنسے پاکستانی و افغان باشندوں نے بھی خوشی کا اظہار کیا ہے۔
کوئٹہ میں مقیم ایک افغان پناہ گزین عبدالولی نے بتایا کہ ان کی بیوی اور بہو افغانستان میں دو ماہ قبل اپنے والدین کے گھر گئی تھیں۔ ’اکتوبر کے آغاز میں جب وہ واپس آرہی تھیں تو سرحد بند ہوگئی اور وہ پھنس گئے۔ یہاں چھوٹے بچے گھر میں اکیلے تھے ہمارے لیے انہیں سنبھالنا مشکل ہوگیا تھا۔‘
افغانستان سے علاج کے لیے کوئٹہ آنے والے اسد اللہ نے بتایا کہ وہ کئی ہفتوں سے پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ’جتنی رقم لائے تھے وہ علاج پر خرچ ہوگئی۔ مزید رقم نہ ہونے کی وجہ سے رہائش اور کھانا پینا مشکل ہوگیا تو مجبوراً لوگوں سے مانگنا پڑا جبکہ رہائش ایک مدرسے میں اختیار کی۔‘ انہوں نے کہا کہ سرحد کھلنے پر وہ خوش ہیں اور جلد سے جلد اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ 

شیئر: