Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انتخابی اصلاحات پر حکومت اور اپوزیشن کی کمیٹی کیوں نہ بن سکی؟

پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن کی مشترکہ کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی حکمران جماعت اور اپوزیشن کے درمیان انتخابی اصلاحات پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے پر اتفاق کے باوجود حکومت نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر آئندہ انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کرانے، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے، کلبھوشن جادھو کو نظرثانی کا حق دینے سمیت متعدد بل مشترکہ اجلاس میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
حکومت کی جانب سے انتخابی اصلاحات کے نام پر الیکشن ایکٹ میں ترامیم کے تین آرڈیننس جاری کیے گئے جبکہ کلبھوشن جادھو کو سزا کے خلاف نظرثانی کا حق دینے اور ٹیکس قوانین میں ترامیم سے متعلق متعدد آرڈیننس بھی پیش کیے۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تنازع کے باعث متعدد بل جو بظاہر متنازع نہیں وہ بھی منظور نہیں ہو سکے جس وجہ سے ان بلوں کی منظوری بھی مشترکہ اجلاس سے لینا ضروری ہو گیا ہے۔
ستمبر میں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی کوششوں سے حکومت اور اپوزیشن انتخابی اصلاحات پر متفق ہوگئے تھے۔ اس سلسلے میں حکومتی اور اپوزیشن رہنماؤں کا ایک اجلاس 21 ستمبر کو سپیکر چیمبر میں ہوا تھا جس میں ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
اس حوالے سے اتفاق کیا گیا تھا کہ سپیکر تمام پارلیمانی رہنماؤں سے ملاقات کریں گے جس کے بعد دونوں ایوانوں میں تحریک پیش کرکے مشترکہ کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔
اس کے بعد سپیکر نے پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس طلب کیا لیکن اسے ملتوی کر دیا گیا۔
انتخابی اصلاحات کے تحت حکومت مشترکہ اجلاس میں آئندہ انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کرانے، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے اور سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے الیکشن ایکٹ میں 75 ترامیم متعارف کرائے گی۔
 کلبھوشن جادھو کو نظرثانی کی اپیل کے علاوہ متعدد ایسے غیر متنازع بل مشترکہ اجلاس میں پیش کرے گی جنھیں اپوزیشن نے سینیٹ سے پاس نہیں ہونے دیا۔

اپوزیشن نے الزام لگایا ہے کہ حکومت الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے دھاندلی کا منصوبہ بنانا چاہتی ہے (فائل فوٹو: اے اپی)

ان میں امیگریشن ترمیمی بل، مسلم فیملی لاز بل، نیشنل کالج آف آرٹس بل، نجکاری کمیشن ترمیمی بل، مقتدرہ قومی زبان بل، کارپوریٹ ری سٹرکچرنگ بل، سٹیٹ بینک سروس کارپوریشن بل، میری ٹائم سکیورٹی بل، پورٹ قاسم اتھارٹی بل، گوادر پورٹ اتھارٹی بل، اینٹی ریپ بل اور کئی دیگر بلز شامل ہیں۔
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت ان اصلاحات کے ذریعے آئندہ انتخابات چوری کرنا چاہتی ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو آر ٹی ایس کی طرز پر دھاندلی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ ’ہم نے تو انتخابی اصلاحات کے لیے حکومت کو تعاون کی پیش کش کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ انتخابات میں دھاندلی کرنے والوں کے لیے غداری کی سزا تجویز کی جائے اور ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمات درج کیے جائیں۔ ووٹ چوری سے بڑی غداری کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔‘
اردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ’ہماری ہی تجویز پر کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ ہوا تھا لیکن کمیٹی تشکیل کیوں نہیں دی جا سکی اس کے بارے میں سپیکر ہی بتا سکتے ہیں۔‘

حکومت کی جانب سے کلبھوشن جادھو کو سزا کے خلاف نظر ثانی کا حق دینے سمیت متعدد آرڈیننس پیش کیے گئے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سپیکر سے ملاقات کرنے والے اپوزیشن رہنماؤں میں شامل جے یو آئی کی رکن قومی اسمبلی اور قانون سازی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کی رکن شاہدہ اختر علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’سپیکر چیمبر میں اتفاق رائے ہوا ضرور تھا لیکن حکومت کی نیت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔‘
 ’وہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل تو دینا چاہتے تھے لیکن اس کو اختیارات دینے کے لیے تیار نہیں تھے اسی وجہ سے کمیٹی تشکیل نہیں دی جا سکی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جب سپیکر نے پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس بلایا تو ہماری قیادت نے اس اجلاس میں جانے سے منع کردیا کیونکہ اپوزیشن الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔‘
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’قانون سازی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی میں ہم نے حکومت کو غیر متنازع بلوں کی پہلے منظوری کا آپشن دیا تھا لیکن ان کی سُوئی ای وی ایم پر اٹکی ہوئی تھی جس سے ان کی نیت واضح ہوگئی۔ اسی وجہ سے غیر متنازع بل بھی منظور نہیں ہوئے۔‘
دوسری جانب حکومت کا موقف ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ہمیشہ سے دھاندلی سے مستفید ہوتی رہی ہیں اس لیے وہ نہیں چاہتیں کہ انتخابی اصلاحات کا عمل مکمل ہو۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے انتخابی اصلاحات پر الیکشن کمیشن کو اعتماد میں لے لیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اردو نیوز سے گفتگو میں وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے کہا کہ ’کمیٹی بنانے پر اتفاق ضرور ہوا تھا لیکن اپوزیشن کی جانب سے کمیٹی کے لیے نام پارلیمانی رہنماؤں نے تجویز کرنا تھے۔ اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں نے سپیکر کو نام ہی نہیں بھیجے جس وجہ سے کمیٹی تشکیل نہیں پا سکی۔‘
انھوں نے کہا کہ سپیکر نے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سید یوسف رضا گیلانی کو فون کرکے نام بھیجنے کا کہا تھا اور باقی جماعتوں سے بھی رابطے کیے تھے لیکن انھوں نے اس میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
بابر اعوان کے مطابق ’انتخابی اصلاحات پر الیکشن کمیشن کو اعتماد میں لیا ہے اور مزید بھی لیں گے اور ان اصلاحات کی روشنی میں انتخابات کے انعقاد کے لیے حکومت بھرپور تعاون بھی کرے گی۔‘

شیئر: