Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترمیمی آرڈیننس کے بعد چیئرمین نیب کے تقرر پر مشاورت کتنی سنجیدہ؟

آرڈیننس کے تحت نیب چیئرمین کی مدت ملازمت 4 سال ہوگی (فائل فوٹو: نیب آفس)
چیئرمین نیب کی مدت ملازمت ختم ہوئے ایک ماہ ہونے کو ہے مگر تاحال حکومت نے نئے چیئرمین کے لیے اپوزیشن سے مشاورت کا عمل بھی شروع نہیں کیا، تاہم دوسری طرف نیب کے قوانین میں ایک ماہ میں تیسری بار ترمیم کا آرڈیننس بھی جاری کردیا گیا ہے۔
جہاں اپوزیشن حکومت کو نیب کے سیاسی اور جانبدارنہ استعمال پر سخت تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے وہیں ماہرین اور حتیٰ کہ حکومت کے مقرر کردہ اٹارنی جنرل نے بھی چیئرمین نیب کے تقرر اور برطرفی میں حکومتی عمل دخل کو غیر مناسب قرار دے رہے ہیں۔
ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر خالد جاوید خان کا کہنا ہے کہ صدر مملکت کو چیئرمین نیب کو ہٹانے کا اختیار دیا تو غیرضروری تنازع کھڑا ہو جائے گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر صدر مملکت کو چیئرمین نیب کو ہٹانے کا اختیار دیا گیا تو وہ بھی اس میں ملوث ہو جائیں گے اور نیب کی آزادی کے حوالے سے ایشوز سامنے آسکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ چئیرمین نیب کو ہٹانے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل بہتر فورم ہے۔
حکومت کی جانب سے ترمیمی آرڈیننس لانے میں مرکزی کردار ادا کرنے والے وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے فیصلہ سازی کے دوران اٹارنی جنرل سپریم جوڈیشل کونسل کو اختیار دینے کے حق میں تھے مگر اس میں قانونی مسئلہ یہ تھا کہ اس کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت تھی اور ہمارے پاس دو تہائی اکثریت نہیں اس لیے صدر کے علاوہ کوئی اور باڈی نہیں تھی۔
اپوزیشن سے مشاورت صدر کیوں کررہے ہیں؟
مقامی میڈیا کے مطابق نئے چیئرمین نیب کی تعیناتی کے لیے مشاورتی عمل آئندہ ہفتے شروع کرنے کا امکان ہے اور اس حوالے سے صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نیب ترمیمی آرڈیننس کے تحت وزیرِاعظم عمران خان اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے مشاورت کریں گے۔
آئینی اور قانونی ماہرین اس حوالے سے بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا پارلیمانی نظام میں صدر کسی اہم عہدے کی تقرری میں اس طرح کا کردار ادا کر سکتا ہے۔

صدرِ عارف علوی نیب ترمیمی آرڈیننس کے تحت وزیرِاعظم اور اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کریں گے (فائل فوٹو: اے پی پی)

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے آئینی امور کے ماہر اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدر کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ ’پارلیمانی نظام میں صدر کا عہدہ ایک علامتی عہدہ ہوتا ہے اور اصل اختیارات وزیراعظم کے پاس ہوتے ہیں۔‘
’پاکستان کا آئین پارلیمانی ہے۔ آرڈیننس کے ذریعے وزیراعظم کے صوابدیدی اختیارات صدر کو منتقل کرنا پارلیمانی نظام کے خلاف ہے۔‘
 کامران مرتضیٰ کے مطابق انہیں لگتا ہے کہ حکومت شخصی پسندوناپسند پر مبنی قانون سازی کر رہی ہے چونکہ وزیراعظم کو اپوزیشن لیڈر شہباز شریف پسند نہیں تو ان سے مشاورت کا کام آرڈیننس کے ذریعے صدر کو سونپ دیا گیا ہے۔
’دوسری طرف نیب کے قانون میں چیئرمین کو ہٹانے کا طریق کار واضح نہیں تھا اور صرف اتنا لکھا تھا کہ ان کو ہٹانے کی وہی شرائط ہوں گی جو ایک جج کو ہٹانے کے لیے ہوتی ہیں۔ حکومت نے اس قانونی سقم کو دور کرتے وقت یہ اختیار بھی صدر کو دے دیا جو کہ پارلیمانی نظام کی روح کے خلاف ہے۔‘
نیب کے سابق پراسیکیوٹر شہزاد انور بھٹی کے مطابق نیب قانون واضح ہے کہ چیئرمین نیب کی تعیناتی قائد ایوان یعنی وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف یعنی اپوزیشن لیڈر کی باہمی مشاورت سے ہوگی اور ماضی میں سپریم کورٹ واضح ہدایت دے چکی ہے کہ یہ مشاورت ’بامعنی‘ ہوگی گویا دونوں کا اتفاق رائے ضروری ہے۔

فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ حکومت نیب ریفرنسز کی وجہ سے شہباز شریف کے ساتھ مشاورت نہیں کرنا چاہتی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے جو مشاورت کا اختیار صدر کو دیا گیا ہے اس میں اب صدر بھی فریق بن گئے ہیں اور وزیراعظم اور صدر دونوں ایک نام پر متفق ہوجائیں تو اپوزیشن لیڈر سے مشاورت بے معنی ہو جائے گی جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے۔
چیئرمین نیب کو ہٹانے کا اختیار صدر کو دینے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نیب کے سابق پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل فرد واحد سے بہتر فورم ہے کیونکہ پوری کونسل نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔
 ’صدور نے تو ماضی میں کئی بار اسمبلیاں تک توڑیں ہوئی ہیں بعد میں اس کی وضاحت دے دی جاتی تھی۔ اسی طرح کوئی صدر جب چاہے چیئرمین نیب کو خودساختہ وضاحت پر برخاست کر سکے گا۔‘
شہزاد بھٹی کے مطابق ساری چیزوں کو دیکھیں تو نیب آرڈیننس کی ان ترامیم سے اپوزیشن کو پیغام دیا جا رہا ہے کہ حکومت اپنے فائدے کے لیے تمام ترامیم لا رہی ہے۔
حکومت کا موقف
چیئرمین نیب کی مدت ملازمت مکمل ہونے پر حکومت نے واضح کیا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان انسداد بدعنوانی کے ادارے کے نئے سربراہ کے تقرر پر قانون کے مطابق قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے مشاورت کے خواہش مند نہیں کیوں کہ شہباز شریف نیب کی جانب سے دائر کردہ کرپشن ریفرنسز میں ملزم ہیں۔

تیسرے ترمیمی آرڈیننس کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل سے چیئرمین نیب کو ہٹانے کا اختیار واپس لے لیا گیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ شہباز شریف نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں دائر کردہ متعدد کرپشن ریفرنسز میں ملزم ہیں اس لیے حکومت نے نیب چیئرمین کے تقرر کے لیے قائد حزب اختلاف سے مشاورت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس معاملے پر وزیراعظم کس طرح نیب کے ملزم سے مشاورت کرسکتے ہیں ان سے پوچھ کر چیئرمین نیب لگانا ایسا ہی ہے جیسے چور سے پوچھا جائے کہ اس کا تفتیشی کون ہوگا۔‘
تاہم اب مقامی میڈیا کے مطابق صدر ڈاکٹر عارف علوی پہلے وزیرِاعظم عمران خان سے چیئرمین نیب کے لیے بذریعہ خط نام طلب کریں گے۔ پھر وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے موصول ہونے والے نام قائدِ حزبِ اختلاف کو بھیجیں گے۔
کسی ایک نام پر اتفاق نہ ہوا تو تعیناتی کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو جائے گا۔
نیب قانون میں کیا نئی ترامیم کی گئی ہیں؟
صدر مملکت کی جانب سے قومی احتساب بیورو کا تیسرے ترمیمی آرڈیننس رواں ہفتے جاری کیا گیاہے جس کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل سے چیئرمین نیب کو ہٹانے کا اختیار واپس لے لیا گیا ہے جبکہ دھوکہ دہی اور فراڈ کے مقدمات کی تفتیش کا اختیار واپس نیب کو دے دیا گیا ہے۔

جاوید اقبال کی بطور چیئرمین نیب مدت گذشتہ ماہ ختم ہوچکی ہے (فائل فوٹو: نیب آفس)

اس ترمیم کے بعد نیب عدالتیں 6 اکتوبر سے پہلے کے مبینہ فراڈ کے تمام مقدمات سن سکیں گی۔ آصف زرداری، شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی اور مریم نواز کو  ملنے والا ریلیف بھی ختم ہو جائے گا۔
نیب کے تیسرے ترمیمی آرڈیننس 2021 کے تحت جعلی اکاؤنٹس کے پرانے مقدمات کسی اور عدالت کو منتقل ہونے کے بجائے نیب عدالتوں میں ہی جاری رہ سکیں گے۔ مضاربہ کیس بھی دوبارہ نیب کے سپرد ہوگیا ہے۔
حکومت نے اس ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے چیئرمین نیب کو ہٹانے کا اختیار سپریم جوڈیشل کونسل سے واپس لے کر صدر مملکت کو دے دیا ہے۔
آرڈیننس کے تحت نیب چیئرمین کی مدت ملازمت 4 سال ہوگی، ہٹانے کا اختیار صدرمملکت کو ہوگا۔ چیئرمین نیب کو ہٹانے کے لیے وہی بنیاد ہوگی جو سپریم کورٹ کے جج کے لیے ہوتی ہے۔
چیئرمین نیب کے تقرر کا اختیار صدر کو ہوگا جو قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے کریں گے جبکہ چیئرمین نیب کی چار سالہ مدت کو ایک بار پھر چار سال کے لیے مشاورت کے ذریعے ہی توسیع دی جا سکے گی۔

ماہرین کے مطابق وزیراعظم چیئرمین نیب کی تعیناتی پر اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کے پابند ہیں (فائل فوٹو: پی ایم آفس)

اگر چیئرمین نیب کی مدت مکمل ہونے تک نئے چیئرمین نیب کا تقرر نہیں ہوتا تو چیئرمین اس وقت تک ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں گے جب تک نئے چیئرمین کا تقرر نہیں ہو جاتا۔
واضح رہے کہ 6 اکتوبر کو نیب آرڈیننس جاری ہونے سے نیب قوانین میں ابہام سامنے آئے تھے جس کے بعد وزارت قانون نے نیب آرڈیننس کی وضاحت کے لیے کمیٹی تشکیل دی تھی۔ نیب ترمیمی آرڈیننس کا اطلاق 6 اکتوبر سے ہو گا۔ منی لانڈرنگ سے متعلق 6 اکتوبر سے پہلے شروع کیے گئے کیسز پرانے آرڈیننس کے تحت جاری رہ سکیں گے۔

شیئر: