Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیا نیب آرڈیننس سیاستدانوں کے کن پُرانے کیسز پر اثر انداز ہو سکتا ہے؟ 

ترمیمی آرڈیننس میں چیئر مین نیب کے اختیارات کم کر دیے گئے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
صدر مملکت نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نیب قانون میں ترامیم جاری کر دی ہیں۔ اس آرڈیننس کے ذریعے چیئرمین نیب کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ 11 شقوں میں ترامیم کی گئی ہیں جن کے ذریعے نیب کے اختیارات کو محدود کر دیا گیا ہے۔  
ان ترامیم کے تحت ٹیکس کیسز، صوبائی یا وفاقی حکومت کی اجتماعی فیصلہ سازی اور طریقہ کار کی غلطی نیب کے دائرہ اختیار سے نکل جائیں گے۔ اس کے علاوہ وفاقی و صوبائی کابینہ، کمیٹیوں، ذیلی کمیٹیوں، کونسلز، کمیشنز اور بورڈ فیصلوں پر بھی نیب کا اختیار ختم ہوجائے گا۔  
بیورو کریسی کے خلاف کیسز بنانے کے حوالے سے بھی نیب کے اختیارات کو محدود کرتے ہوئے ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت پروسیجرل لیپس یعنی طریقہ کار کی کوتاہی یا اچھی نیت سے سرکاری امور نمٹانے اور براہ راست مالی فائدہ نہ لینے کے کیسز بھی نیب کے اختیار سے خارج ہوں گے۔  
اسی طرح نجی اداروں کے خلاف کیسز بھی نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئیں گے۔  

نیب آرڈیننس کون سے کیسز  پر اثر انداز ہو سکتا ہے؟ 

نیب کے سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس آرڈیننس کا اطلاق تمام کیسز پر ہوگا کیونکہ اس میں ایسی کوئی پرو ویژن موجود نہیں کہ مستقبل کے کیسز پر آرڈیننس کا اطلاق ہوگا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’آمدن سے زائد اثاثوں کے کیسز کے علاوہ دیگر سیاسی شخصیات کے خلاف تمام ریفرنس نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہو جائیں گے۔‘  

آرڈیننس کے ذریعے کی گئی ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج ہو سکتی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

پروسیجرل لیپسز یا طریقہ کار میں کوتاہی اور اس کے علاوہ وفاقی کابینہ اور کمیٹیوں کے فیصلوں کو استثنیٰ دینے کی ترمیم کے بعد سیاسی شخصیات کے خلاف قائم مقدمات پر براہ راست اثر انداز ہوں گے۔
جس میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایل این جی ٹرمینل کیس، سابق وفاقی وزیر احسن اقبال کے خلاف نارووال سپورٹس سٹی ریفرنس، سابق گورنر مہتاب عباسی کے خلاف پی آئی اے میں غیر قانونی بھرتیوں سمیت دیگر بڑے کیسز پر آرڈیننس اثر انداز ہو سکتا ہے۔  
اس کے علاوہ وزیر خزانہ شوکت ترین کے خلاف رینٹل پاور پلانٹس میں ریفرنس بھی پروسیجرل کارروائی کے زمرے میں شامل ہوتا ہے۔  
سابق نیب پراسیکیوٹر شہزاد انور بھٹی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ان تمام کیسز میں نیب ابھی تک کچھ بھی ثابت نہیں کر سکا اور یہ نیب کی ناکامی تھی کہ کمزور کیسز بنائے گئے اور ریفرنس فائل کیے گئے جبکہ ماضی میں کمزور کیسز پر ریفرنس دائر کرنے کی منظوری ہر گز نہیں دی جاتی تھی۔‘ 
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے آرڈیننس کے ذریعے کی گئی ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج ہو سکتی ہے۔

شوکت ترین کے خلاف ریفرنس بھی پروسیجرل کارروائی کے زمرے میں آتا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

’سپریم کورٹ نے ماضی میں بھی چیئرمین نیب کی تعیناتی کے حوالے سے فیصلے دیے ہیں، اس آرڈیننس سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو فائدہ ہو رہا ہے، لیکن دیکھنا ہوگا کہ زیادہ فائدہ کون حاصل کر رہا ہے۔‘  
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس وقت حکومت سب سے بڑا ہدف چیئرمین نیب کی تعیناتی کا حاصل کرنا چاہتی ہے اس لیے زیادہ فائدہ تو حکومت کو ہی مل رہا ہے۔‘
سابق پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق کے مطابق ’نجی کمپنیوں کو نیب کے دائرہ اختیار سے خارج کرنے کی ترمیم کے بعد ہاؤسنگ سوسائیٹیز کے خلاف نیب میں کیسز جن میں سرکاری عہدہ دار ملوث نہیں وہ بھی خارج ہو جائیں گے جبکہ مضاربہ اور مشارکہ سکینڈل پر بننے والے ریفرنس بھی اثر انداز ہوں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’آرڈیننس کے تحت کسی بھی منصوبے کی منظوری کابینہ، اکنامک کورڈنیشن کونسل یا کابینہ کی کسی اور کمیٹی سے لی گئی ہو یا حکومت کے بنائے گئے کسی بورڈ سے لیے گئے ہوں ان کے فیصلے پر بھی نیب کیس نہیں بن سکے گا، جس کا مطلب ہے کہ اکیپیٹل ڈویپلمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے خلاف کیسز بھی اثر انداز ہوں گے جن میں بورڈ نے فیصلے لیے ہوں۔‘  

شیئر: