Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چیئرمین کی تعیناتی: نیب قانون میں ترمیم کا آرڈیننس آج لایا جائے گا

نیب آرڈیننس 1999 کی شق چھ (بی) کے تحت چیئرمین نیب کے عہدے کی مدت میں توسیع نہیں کی جا سکتی۔ (فوٹو: اے پی پی)
چیئرمین نیب جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کی مدت ملازمت میں خاتمے کے بعد نئے چیئرمین کی تعیناتی تک انہیں برقرار رکھنے اور نیب قانون میں ترامیم  ​کے حوالے سے حکومت بدھ کو آرڈیننس لا رہی ہے۔
وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے کابینہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں بتایا کہ ’نئے آرڈیننس میں اس قانونی نقص کو دور کیا جائے گا کہ اگر اپوزیشن لیڈر یا لیڈر آف دی اپوزیشن پر کیسز ہوں تو اس سے مشاورت کی شرط ختم کی جائے۔‘
دوسری طرف وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے کہا کہ نئے آرڈیننس میں ملزم کو ضمانت کا حق دینے سمیت چند مزید ترامیم بھی کی جائیں گی۔
ایک نجی ٹی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’آرڈیننس کے مطابق جب تک اپوزیشن لیڈر اور وزیراعظم کے اتفاق سے نئے چیئرمین کی تعیناتی نہیں ہوتی موجودہ چیئرمین ہی کام جاری رکھیں گے۔ اگر دونوں رہنماؤں میں مشاورت سے اتفاق نہ ہو سکا تو ایک پارلیمانی کمیٹی حتمی فیصلہ کرے گی ایسے ہی جس طرح چیف الیکشن کمشنر کا فیصلہ ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کہ جونہی یہ آرڈیننس جاری ہو گا اگلے سیشن میں اسے بل کی شکل میں حکومت رکھے گی اور کمیٹی کو پیش کر دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پچھلے قانون میں ملزم کو ضمانت کے لیے باقاعدہ رٹ کرنی پڑتی ہے مگر اب ملزم فوری طور پر ضمانت کی درخواست دے سکے گا۔ بابر اعوان کے مطابق اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کی بات میں ترمیم شامل ہے۔
اس سے قبل فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف پر نیب کیسز ہیں اور ان سے مشاورت کا مطلب یہ ہو گا کہ چور سے پوچھا جائے کہ اس کی تفتیش کون کرے۔
​یاد رہے کہ چیئرمین نیب کے عہدے کی مدت آئندہ چند دن میں ختم ہو رہی ہے۔ 

شیری رحمان نے کہا کہ اپوزیشن کی مشاورت کے بنا چیئرمین نیب کو آرڈیننس کے ذریعے توسیع دینا غیر آئینی عمل ہوگا۔ (فائل فوٹو)

موجودہ چیئرمین نیب کی تعیناتی کا نوٹی فیکیشن آٹھ اکتوبر 2017 کو کیا گیا تھا اور انہوں نے 10 اکتوبر سے چار سالہ عہدے کا چارج سنبھالا تھا۔
نیب آرڈیننس 1999 کی شق چھ (بی) کے تحت چیئرمین نیب کے عہدے کی مدت میں توسیع نہیں کی جا سکتی تاہم نئے آرڈیننس میں اس شق میں بھی ترمیم کی جائے گی۔
نیب کے موجودہ قانون، نیب آرڈیننس 1999، کی شق چھ (بی) میں واضح لکھا ہے کہ چیئرمین نیب کے عہدے کی مدت چار سال ہوگی اور یہ مدت ناقابل توسیع ہے، اس لیے حکومت کو جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کی مدت میں توسیع کے لیے نیب قانون میں ترمیم کرنا ہوگی۔
اپوزیشن کا ردعمل:
اپوزیشن نے حکومت کی جانب سے نیب چیئرمین کو برقرار رکھنے کے لیے آرڈیننس لانے پر شدید تنقید کی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ’چیئرمن نیب کی تقرری کا طریقہ کار آئین پاکستان میں درج ہے مگر آئین کو توڑ کر چیئرمن نیب کو توسیع دی جا رہی ہے۔ یہ چیئرمین نیب کی نوکری میں توسیع نہیں بلکہ آٹا چینی بجلی گیس دوائی چور اے ٹی ایمز کو عمران صاحب کا این آر او ہے۔ نیب چیئرمین کی نوکری میں توسیع دراصل چور عمران خان اور ان کے مافیا کا تحفظ ہے۔‘
چیئرمن نیب کی نوکری میں توسیع دراصل مالم جبّہ، بلین ٹری سونامی، بی آر ٹی سے عمران صاحب کا اپنے لیے این آر او لینا ہے۔
نیب چیئرمین کی تقرری پر اپوزیشن لیڈر سے مشاورت آئین کا تقاضا ہے، بغیر مشاورت چیئرمین نیب کی تعیناتی غیر آئینی و غیر قانونی ہوگی۔

بابر اعوان نے کہا کہ جب تک اپوزیشن لیڈر اور وزیراعظم کے اتفاق سے نئے چیئرمین کی تعیناتی نہیں ہوتی موجودہ چیئرمین ہی کام جاری رکھیں گے۔ (فوٹو: پی ایم ہاؤس)

پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی آرڈیننس کے ذریعے چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں توسیع کی مخالفت کی ہے۔
پارٹی کی سینیئر رہنما شیری رحمان کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں توسیع غیرآئینی اور غیر قانونی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’چیئرمین نیب کو آرڈیننس کے ذریعے 120 دن کی توسیع دینے پر خدشات ہیں۔ نیب آرڈیننس 1999 کے مطابق چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں دی جا سکتی۔‘
 شیری رحمان  کے مطابق ’وزیراعظم ایک آئینی اور قانونی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حکومت تمام اپوزیشن سے مشاورت کا آئینی اختیار چھین رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اپوزیشن کی مشاورت کے بنا چیئرمین نیب کو آرڈیننس کے ذریعے توسیع دینا غیر آئینی عمل ہوگا۔ اگر اپوزیشن سے مشاورت کرنا مفادات کا ٹکراؤ ہے تو کیا وزیراعظم سمیت وزرا کے خلاف کیسز نہیں؟ چینی، آٹا، پیٹرول، ادویات، بی آر ٹی، ایل این جی، رنگ روڈ، بلین ٹری اور ہیلی کاپٹر سکینڈلز کس کے خلاف ہیں؟‘
انہوں نے سوال کیا کہ ’کیا وزیراعظم اپنا اور اپنے وزرا کے مفادات کا تحفظ نہیں کر رہے؟  حکومت کے قول و فعل میں کھلا تضاد ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم معنی خیز مشاورت کے بنا نیب چیئرمین کی تقرری نہیں کر سکتے۔

شیئر: