Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چیئرمین کے اختیارات میں کمی کے علاوہ نئے نیب آرڈیننس میں کیا ہے؟

نئے آرڈیننس کے ذریعے چیئرمین نیب کی چار سالہ مدت ملازمت کو قابل توسیع کر دیا گیا ہے (فوٹو: سکرین گریب)
صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے نیب ترمیمی آرڈیننس 2021 جاری کر دیا ہے جس کے تحت نہ صرف چیئرمین نیب کو توسیع دی جا سکے گی بلکہ کئی محکمے اور افراد اب نیب قانون کے دائرہ اختیار سے باہر نکل جائیں گے۔
حکومت کی جانب سے تیارہ کردہ آرڈیننس کے ذریعے نیب کے موجودہ قانون یعنی نیب آرڈیننس 1999 میں 11 تبدیلیاں کی گئی ہیں جس کے تحت قومی احتساب بیورو کے اختیارات میں بھی کمی کی گئی ہے۔
 آرڈیننس کو 120 دنوں کے اندر پارلیمنٹ سے منظور ہونا ہے جہاں پر اپوزیشن اس کا راستہ روک سکتی ہے، تاہم اگر یہ قانون بنتا ہے تو پاکستان میں احتساب کے عمل میں واضح تبدیلی آجائے گی۔
چیئرمین نیب کا تقرر اور توسیع
نئے آرڈیننس کے ذریعے نیب کے قانون میں اہم ترین تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ چیئرمین نیب کی چار سالہ مدت ملازمت کو قابل توسیع کر دیا گیا ہے۔ یعنی موجودہ سمیت ہر چیئرمین نیب کو ایک بار عہدے کی میعاد میں توسیع دی جا سکے گی ۔ یاد رہے کہ نیب کے پرانے قانون میں واضح طور پر عہدے کی مدت کو ناقابل توسیع قرار دیا گیا تھا۔
 نئے آرڈیننس میں یہ بھی گنجائش رکھی گئی ہے کہ جب تک نئے چیئرمین کا تقرر اتفاق رائے سے نہ ہو جائے موجود چیئرمین نیب کام جاری رکھیں گے۔ اس طرح چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو بھی نئے چیئرمین نیب کی تعیناتی تک توسیع دے دی گئی ہے۔
پرانے قانون کے تحت وزیراعظم نے اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے چیئرمین نیب تعینات کرنا ہوتا تھا مگر اب صدر مملکت وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کے بعد چیئرمین نیب تعینات کریں گے۔ 
آرڈیننس کے مطابق صدر مملکت چیئرمین نیب کا تقرر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے کریں گے تاہم صدر مملکت اتفاق رائے نہ ہونے پر چیئرمین نیب کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائیں گے۔ پارلیمانی کمیٹی میں 12 ارکان شامل ہوں گے جن میں چھ اپوزیشن سے اور چھ حکومت سے ہوں گے۔

اب صدر مملکت وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کے بعد چیئرمین نیب کو تعینات کریں گے (فائل فوٹو: اے پی پی)

اب کن کن اداروں کو استثنیٰ حاصل ہو گا؟
نئے آرڈیننس کے ذریعے ٹیکس کیسز، اجتماعی فیصلہ سازی، طریقہ کار کی غلطی نیب دائرہ اختیار سے نکل جائیں گے۔ وفاقی و صوبائی کابینہ، کمیٹیوں، کونسلز، کمیشنز اور بورڈ فیصلوں پر نیب اختیار ختم ہوگا، اچھی نیت سے سرکاری امور نمٹانے، براہ راست مالی فائدہ نہ لینے کے کیسز بھی نیب اختیار سے خارج ہوں گے۔
گویا نیب قانون کا اطلاق  مشترکہ مفادات کونسل، این ای سی، این ایف سی، ایکنک، سی ڈی ڈبلیو پی، پی ڈی ڈبلیو پی کے فیصلوں پر نہیں ہو گا۔
آرڈیننس کے مطابق قواعد کی بے ضابطگی کے حوالے سے عوامی یا حکومتی منصوبے بھی نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہوں گے۔
ٹرائل کیسے ہو گا؟ ضمانت کیسے ملے گی؟
نئے آرڈیننس کے تحت تمام جرائم ناقابل ضمانت ہوں گے، صرف احتساب عدالت کے پاس ضمانت یا ملزم کی رہائی کا اختیار ہوگا۔ نیب کے ملزم کو کرپشن کی رقم کے مساوی زرضمانت جمع کرنے پر ضمانت مل سکے گی۔
نئے قانون کے مطابق نیب عدالتیں کرپشن کیسز کا روزانہ کی بنیاد پر ٹرائل کریں گی اور چھ ماہ میں فیصلہ سنایا جائے گا۔ ریفرنس سے پہلے اور ریفرنس دائر ہونے کے بعد چیئرمین نیب کو مقدمہ ختم کرنے کا اختیار ہوگا، تاہم چیئرمین نیب کے اختیار میں یہ بھی کمی کی گئی ہے کہ ہر ریفرنس دائر کرنے سے پہلے چیئرمین اور پراسیکیوٹر جنرل سے تحریری مشاورت کرنا لازم ہوگا۔ ریفرنس ملک بھر میں کسی بھی احتساب عدالت میں دائر کیا جاسکے گا اور احتساب عدالت کو شہادت ریکارڈ کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی اجازت ہو گی۔ یعنی احتساب عدالت میں آڈیو ویڈیو آلات سے بیانات بھی ریکارڈ ہوں گے اس حوالے سے طریق کار بھی بتایا گیا ہے۔

آرڈیننس کے مطابق قواعد کی بے ضابطگی کے حوالے سے عوامی یا حکومتی منصوبے بھی نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہوں گے (فائل فوٹو: اے پی پی)

احتساب عدالت کے ججوں کی تعیناتی اور مراعات
مجوزہ آرڈیننس کے ذریعے احتساب عدالت کے ججوں کو ہائی کورٹ کے جج کی مراعات ملیں گی، جب کہ جج احتساب عدالت کو ہٹانے کے لیے صدر و چیف جسٹس کی مشاورت لازمی قرار دینے کی تجویز بھی آرڈیننس کے مسودے میں شامل ہے۔ آرڈیننس کے مطابق صدر مملکت جتنی چاہیں گے ملک میں احتساب عدالتیں قائم کریں گے اور وہ کسی سرونگ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج  کو متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت سے احتساب عدالت کا جج مقرر کر سکیں گے۔ اس کے علاوہ 60 سال سے کم عمر ریٹائرڈ جج کو بھی تعینات کیا جا سکے گا۔
آرڈیننس کے تحت احتساب عدالتوں کے ججز کا تقرر تین سال کے لیے ہوگا۔

شیئر: