Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جوہری معاہدہ، ایران مذاکرات کے لیے بناوٹی موقف کے ساتھ نہ آئے: فرانس

فرانسیسی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ’پہلے تو یہ فیصلہ کیا جائے کہ آیا مذاکرات وہیں سے شروع ہوں گے جہاں جون میں ختم ہوئے تھے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
فرانس کے وزیر خارجہ ژاں ویس لی ڈریان نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ وہ 2015 کے جوہری معاہدے پر مذاکرات کے آئندہ دور کے لیے بناوٹی موقف کے ساتھ نہ آئے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق فرانسیسی وزیر خارجہ کے اس بیان سے ایک روز قبل ہی فرانس نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) پر زور دیا تھا کہ وہ ایران کو ایک سخت پیغام بھجوائے۔
اس سے قبل ایران نے فرانس کے بیان پر آئی اے ای اے سے جو 2015 کے جوہری معاہدے پر عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کے عمل درآمد کا جائزہ لے رہی ہے کہا تھا کہ اس کا عمل ’کسی بھی سیاسی کردار سے آزاد ہونا چاہیے۔‘
یہ بیانات 2015 کی جوہری ڈیل کی بحالی کے حوالے سے امریکہ، ایران اور عالمی طاقتوں کے بالواسطہ مذاکرات سے قبل کشیدگی میں اضافے کو ظاہر کرتے ہیں جو آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس کے بعد 29 نومبر کو ہونے ہیں۔
مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ معاہدے کی دوبارہ بحالی کے لیے وقت کم ہے، وہ معاہدہ جسے 2018 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معطل کردیا تھا جس سے اس عمل میں شریک برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس جیسی طاقتوں کو مایوسی ہوئی۔
اس سے قبل ایران کے جوہری معاہدے پر مذاکرات کے چھ ادوار ہوچکے ہیں، ان مذاکرات میں رکاوٹ ایران میں نئے صدر ابراہیم رئیسی کے انتخاب کے بعد پیدا ہوئی جن کا کہنا ہے کہ ’ان کا ملک مذاکرات میں اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔‘

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا کہنا ہے کہ ’ان کا ملک مذاکرات میں اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

فرانس نے تہران کو اس کے مطالبات پر خبردار کیا ہے جنہیں امریکی اور یورپی سفارت کار غیر حقیقی قرار دیتے ہیں جن میں امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے 2017 میں عائد کی گئی پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔
فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں ویس لی ڈریان نے پیرس کے لے موندے اخبار کو بتایا کہ ’پہلے تو یہ فیصلہ کیا جائے کہ آیا مذاکرات وہیں سے شروع ہوں گے جہاں جون میں ختم ہوئے تھے۔‘
سنہ 2015 کی جوہری ڈیل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’اگر تو یہ بات چیت بناوٹی ہے تو پھر ہمیں مشترکہ جامع لائحہ عمل کو خالی سمجھنا ہوگا۔‘
’امریکہ مذاکرات میں وہیں سے واپسی کے لیے تیار ہے جہاں انہوں نے جون میں انہیں چھوڑا ہے تاکہ یہ جلد سے جلد مکمل ہوسکیں۔‘
انہوں ںے کہا کہ ’ہم 29 نومبر سے اور اس کے بعد آنے والے دنوں میں اس بات کا جائزہ لیں گے کہ آیا ایران کی بھی یہی خواہش ہے۔‘

شیئر: