Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل سے دلی: بھائی پکچر ابھی باقی ہے

یہ صرف تین متنازع زرعی قوانین کی واپسی نہیں بلکہ ہندوستان کے موجودہ جمہوری منظرنامے میں ایک اہم موڑ ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
اگر آپ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے رہنما ہوں اور آپ کے عوام کا ایک بڑا حصہ آپ کے وضع کردہ کچھ قوانین سے ناخوش ہو تو آپ کیا کریں گے؟
آپ دو ہی کام کرسکتے ہیں۔ یا تو ان کی درخواست کو مسترد کر دیں یا مان لیں۔ لیکن آپ بہت ہی رحم دل رہنما ہوں، ہر وقت عوام کے بارے میں سوچتے رہتے ہوں، انہیں کے لیے آپ کا دل دھڑکتا ہو، ہر لمحہ بس یہ ہی فکر رہتی ہو کہ اپنے عوام کی زندگی کو کیسے اور بہتر بنایا جائے، تو آپ یہ دونوں کام بھی کر سکتے ہیں۔
اس لیے وزیراعظم نریندر مودی نے یہی کیا۔ ایک سال تک کسانوں کی درخواست کو مسترد اور نظر انداز کیا۔ کسان گرمی، سردی اور برسات میں کھلے آسمانوں کے نیچے احتجاج کرتے رہے اور حکومت کہتی رہی کہ زراعت کے شعبے میں اصلاحات ضروری ہیں اور نئے قوانین سے آپ کی زندگی بدل جائے گی۔
کسان کہتے رہے کہ زندگی تو واقعی بدل جائے گی لیکن بہتری کے لیے نہیں۔ سینکڑوں کسانوں کی جانیں گئیں، جنوری میں لال قلعہ پر جو ہوا وہ تو آپ کو یاد ہی ہو گا، وہ مناظر بھلائے نہیں جا سکتے کیونکہ ایسا پہلے کبھی ہوا نہیں تھا، لیکن حکومت یہ ہی کہتی رہی کہ قانون اچھے ہیں، بس آپ کے سمجھنےاور ہمارے سمجھانے میں کمی رہ گئی ہے۔
پھر وزیراعظم اچانک ٹی وی پر نمودار ہوئے اور انہوں نے کسانوں کی بات مان لی۔ اب اگر آپ اپنے عوام سے اور خاص طور پر کسانوں سے اتنی محبت کرتے ہوں تو انکار بھی کیسے کر سکتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر قانون اچھے تھے اور صرف کچھ کسانوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی، تو واپس کیوں لیے اور اچھے نہیں تھے تو بنائے ہی کیوں تھے؟ کیوں صلاح مشورے کے عمل کو مستقل طاق میں رکھا گیا؟ قانون سازی کے وقت بھی اور احتجاج کے دوران بھی۔
دراصل یہ صرف تین متنازع زرعی قوانین کی واپسی نہیں ہے، یہ ہندوستان کے موجودہ جمہوری منظرنامے میں ایک اہم موڑ ہے۔ سات سال کے بعد پہلی مرتبہ لوگوں کو لگا ہے کہ ایک طاقتور حکومت اور حکمراں کو جھکایا بھی جا سکتا ہے۔ حکومت کے پیچھے ہٹنے سے کسانوں کا حوصلہ بھی بلند ہوا ہے، وہ اب اپنی باقی مانگیں منوانا چاہتے ہیں، اور حزب اختلاف کا بھی۔ انہیں بھی امید کی ایک کرن نظر آنا شروع ہوئی ہے۔

بی جے پی کو اترپردیش کے اسمبلی انتخابات میں اپنے پیروں کے نیچے سے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

لیکن ایسا کیا ہوا کہ نریندر مودی کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا؟ ان لوگوں کی بات آخر کیوں مان لی گئی جنہیں کبھی خالصتانی بتایا گیا تو کبھی ٹکڑے ٹکڑے گینگ۔۔۔ یعنی وہ دیش مخالف عناصر جو ملک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ نریندر مودی کی امیج ایک ایسے رہنما کی ہے جو یوٹرن کی سیاست میں یقین نہیں رکھتے۔ اب وہ امیج چکنا چور ہو گئی ہے۔
اس کی تین بنیادی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
سب سے اہم یہ کہ بی جے پی کو اترپردیش کے اسمبلی انتخابات میں اپنے پیروں کے نیچے سے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ کسانوں کو ناراض کر کے انڈیا پر حکومت کرنا ممکن نہیں ہے۔ اور پارٹی کو ڈر تھا کہ خاص طور پر مغربی اترپردیش میں اسے بھاری نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ اترپردیش ہاتھ سے گیا تو بس یہ سمجھ لیجیے کہ دلی سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔
لیکن اگر بات اتنی سیدھی سادہ ہے تو کیا وزیراعظم اور ان کی پارٹی کو بھی پہلے سے معلوم نہیں ہو گی؟ معلوم تو ضرور ہو گی لیکن جب آپ کا سکہ چل رہا ہو، آپ نے نوٹ بندی جیسے بڑے بڑے فیصلہ کیے ہوں اور آپ کا کچھ نہ بگڑا ہو، تو یہ لگنا فطری بات ہے کہ اس جھٹکے کو بھی جھیل لیں گے۔ عوام ہم سے محبت کرتے ہیں، ہمارے خلاف نہیں جائیں گے، لوگ پہلے تو شور مچاتے ہیں لیکن الیکشن کے وقت پر پھر ہمارے ساتھ آ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔
اب شاید بی جے پی کو احساس ہوا کہ اس مرتبہ بھی لوگ لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر ووٹ تو ڈالیں گے لیکن ہمارے لیے نہیں۔
دوسرا پنجاب کے اسمبلی انتخابات۔ پنجاب میں بی جے پی کی اپنی بہت زیادہ حیثیت نہیں ہے، وہاں وہ دہائیوں سے سکھوں کی مذہبی پارٹی شیرومنی اکالی دل کے ساتھ مل کر الیکشن لڑتی تھی۔ لیکن زرعی قوانین کی اصل گونج پنجاب میں ہی سنائی دی تھی اور لوگوں کا موڈ بھانپتے ہوئے اکالی دل نے بی جے پی سے گذشتہ برس ہی واسطہ ختم کر لیا تھا۔ جب تک متنازع قوانین واپس نہیں ہوتے، پنجاب کی کوئی پارٹی بی جے پی سے ہاتھ ملانے کی حماقت نہیں کر سکتی تھی۔ قانون کی واپسی کے بعد کانگریس کے سابق وزیراعلیٰ امریندر سنگھ کی نئی پارٹی بی جے پی سے اتحاد کر سکتی ہے لیکن لگتا نہیں ہے کہ اس مجوزہ اتحاد کو زیادہ حمایت ملے گی۔

پنجاب میں بی جے پی کی اپنی بہت زیادہ حیثیت نہیں ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس کی وجہ یہ ہے کہ سکھوں میں ناراضی ہے۔ پنجاب میں اگر سکھ ناراض ہوں، انہیں یہ لگے کہ حکومت انہیں ان کے حق سے محروم کر رہی ہے اور ساتھ ہی ان کی حب الوطنی پر بھی کیچڑ اچھالا جا رہا ہے، تو یہ ایک خطرناک کاک ٹیل ہے۔ حکومت کو بھی شاید اس خطرے کا احساس تھا، بہت سے لوگ باور کرا رہے تھے کہ پنجاب میں بے چینی ہو تو سرحد پار سے اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ یہ خطرہ کون سی حکومت مول لینا چاہے گی؟
تو سوال یہ ہے کہ کون ہارا اور کون جیتا۔ کسانوں کو فی الحال کچھ نہیں ملا ہے۔ بس اس طرح سمجھیے کہ کسی شخص کی نوکری چلی گئی ہو اور اسے مصلحتاً بحال کر دیا جائے۔ کسان اب پھر وہیں ہیں جہاں قانون بنائے جانے سے پہلے تھے، یعنی سخت مالی دشواری میں۔
اس وقت نریندر مودی کو پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔ لیکن الیکشن میں ابھی تین چار مہینے ہیں۔ اور جیسا ہم پہلے بھی کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ انڈیا کے ووٹر زیادہ پرانی باتیں یاد نہیں رکھتے۔
اس لیے اگر اترپردیش میں کوئی بی جے پی کی شکست کا جشن منانے کی تیاری کر رہا ہو تو ہمارا مشورہ تو یہی ہو گا کہ بھائی پکچر ابھی باقی ہے۔

شیئر: