Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل سے دلی: جانے بھی دو یارو

نائب وزیر داخلہ اجے مشرا کے بیٹے پر کسانوں کو گاڑی سے کچلنے کا الزام ہے۔ (فوٹو: انڈین ایکسپریس)
اگر کسی عمارت کی پہلی منزل پر تین سوئچ ہوں اور چوبیسویں منزل پر ایک بلب، اور آپکو صرف ایک مرتبہ چوبیسویں منزل پر جانے کی اجازت ہو، تو آپ یہ کیسے پتا لگائیں گے کہ بلب ان تین میں سے کس سوئچ سے جلتا ہے؟ ذہن پر تھوڑا زور ڈالیں گے تو آپکو جواب مل جائے گا۔
زور نہ ڈالنا چاہیں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ پہلی منزل پر سوئچ لگانے کی کیا تک ہے؟ جہاں بلب ہے سوئچ بھی وہیں ہونا چاہیے تھا، لیکن زندگی میں سب کچھ آپکی مرضی اور خواہشات کے مطابق نہیں ہوتا۔
جواب آپکو ذرا دیر بعد بتائیں گے۔ تب تک کچھ اور ٹیڑھے سوال۔
اگر کسی وزیر کے بیٹے کو قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا جائے تو وزیر موصوف کو اپنے عہدے پر قائم رہنا چاہیے یا مستعفی ہوجانا چاہیے؟
یہ سوال بھی ذرا پیچیدہ ہے۔ تھوڑا سیاق و سباق بتا دیتے ہیں، شاید جواب ڈھونڈنا آسان ہو جائے۔ اگر وزیر کے پاس وزارت داخلہ کا قلمدان ہو، جس کا مطلب یہ ہے کہ پولیس ان کے ماتحت کام کرتی ہے، تو انہیں کیا کرنا چاہیے؟
اور اگر خود وزیر موصوف کو بھی قتل کے الزام کا سامنا ہو تو انہیں کیا کرنا چاہیے۔ آپکو شاید لگے گا کہ یہ کسی فلم کی کہانی ہے جسے بلا وجہ الجھایا جا رہا ہے لیکن یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے۔
انڈیا کے نائب وزیر داخلہ اجے مشرا کے بیٹے آشیش مشرا کو اتر پردیش کی پولیس نے بظاہر نہ چاہتے ہوئے بھی قتل کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ ان پر اس اندوہ ناک واقعہ میں ملوث ہونے کا الزام ہے جس میں چند روز قبل چار کسانوں کو گاڑیوں سے کچل کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
آپ نے اس واقعہ کی وائرل ویڈیو دیکھی ہی ہوگی۔ کسان وفاقی حکومت کے متنازع زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے تھے کہ پیچھے سے تین گاڑیاں تیز رفتاری سے آئیں اور چار کسانوں کو کچلتی ہوئی نکل گئیں۔ اس کے بعد تشدد میں چار اور لوگ مارے گئے۔

نائب وزیر داخلہ کے بیٹے آشیش مشرا کو قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

اتر پردیش میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے۔ اس لیے پولیس نے پہلے آشیش مشرا کے گھر کے باہر ایک نوٹس لگایا کہ وہ تفتیش کرنے والے افسر کے سامنے پیش ہوں۔ وہ نہیں آئے توسوچا ہوگا کہ مصروف ہوں گے، انسان کو اور بھی بہت کام ہوتے ہیں، اس لیے ایک اور نوٹس لگایا۔ اور لوگ پولیس کو بلاوجہ برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ پولیس کسی ملزم کے ساتھ اس سے زیادہ اور کیا تعاون کرسکتی ہے؟
اس دوران وزیر داخلہ کہتے رہے کہ اس واقعہ سے ان کے بیٹے کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ جب پانی سر سے گزرنے لگا اور سپریم کورٹ نے از خود اس کیس کا نوٹس لیا تو پھر گرفتاری کرنی ہی پڑی۔
اب لوگ کہہ رہے ہیں کہ مشرا جی کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا چاہیے۔
لیکن کیوں؟ یہ بات اپنی سمجھ سے باہر ہے۔ صرف اس لیے کہ اس واقعہ سے کچھ روز پہلے انہوں نے ایک تقریر میں کسانوں کو باور کرایا تھا کہ ہم سے مت الجھنا ورنہ پچھتانا پڑے گا، گھر بار چھوڑ کر بھاگنا پڑے گا؟ یا اس لیے کہ حملے میں شامل ایک گاڑی ان کے اپنے نام پر رجسٹرڈ ہے؟ یا اس لیے کہ اس کیس میں پولیس نے ان کے اپنے بیٹے کو گرفتار کیا ہے؟ یا اس لیے کہ انہیں خود ایک قتل کے مقدمے کا سامنا ہے جس میں عدالت نے فیصلہ ساڑھے تین سال سے محفوظ کر رکھا ہے؟ اس سب سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ کچھ نہیں۔
انڈیا میں انصاف ملنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ لیکن اگر اجے مشرا کے بیٹے آشیش مشرا واقعی قصوروار ہیں تو پھر اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ اجے مشرا اپنے عہدے پر فائز رہیں اور انہیں ان کے انجام تک پہنچائیں۔ انصاف پرست رہنما ایسا ہی کرتے ہیں۔ اتر پردیش میں بھی بی جے پی کے وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ قصوروار جو بھی ہوگا اسے بخشا نہیں جائے گا۔ وزیراعلیٰ کی بات پر بھروسہ نہیں کرنا تو یہ آپکی خوشی ہے، جمہوریت میں آپکو یہ حق بھی حاصل ہے۔

نائب وزیر اجے مشرا نے چند دن پہلے کسانوں کو دھمکی بھی دی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ وزیر استعفیٰ نہیں دیں گے کیونکہ اس سے بی جے پی کی بدنامی ہوگی، اور ایک طرح سے لوگوں کے دلوں میں یہ تاثر گھر کر جائے گا کہ کسانوں کے قتل میں بی جے پی کے ایک سینیئر وزیر کا ہاتھ تھا۔ اور اترپریش کے اسمبلی انتخابات سے قبل یہ خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا۔ اسی لیے وزیراعظم نریندر مودی بھی اپنی تقریروں میں اس واقعے کا ذکر کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
تو بات وہیں کی وہیں رہی۔ اجے مشرا کو استعفیٰ دینا چاہیے یا نہیں۔ یا خود نہ جانا چاہیں تو وزارتی کونسل سے برخاست کیا جانا چاہیے یا نہیں؟ آپ ذہن پر ذرا زور ڈالیے، اور اگر جواب مل جائے تو ہمیں بھی بتائیے گا۔ ہم بھی بالکل کنفیوز ہو گئے ہیں۔
رہا سوال بلب اور سوئچ کا۔ تو جواب کافی آسان ہے۔ یا کم سے کم آپکو لگے گا کہ تھوڑا دماغ استعمال کرتے تو جواب مل جاتا۔ پہلے ایک سوئچ آن کیجیے اور اسے دس منٹ تک آن رہنے دیجیے۔ بند کرکے دوسرا سوئچ آن کیجیے اور چوبیسویں منزل پر جا کر دیکھیے کہ بلب جل رہا ہے یا نہیں۔ اگر جل رہا ہے تو ظاہر ہے کہ بیچ والا سوئچ ہے۔ اگر نہیں تو بلب چھو کر دیکھیے کہ گرم ہے یا نہیں۔ اگر گرم ہے تو پہلا سوئچ ہے۔ اور اگر گرم نہیں ہے تو تیسرا۔
اگر وزیر موصوف بھی تھوڑا دماغ پر زور ڈالیں تو انہیں بھی جواب مل سکتا ہے۔
دماغ کی بتی جلنے میں دیر نہیں لگتی۔ 

شیئر: