Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنڈورا پیپرز کی تحقیقات میں پیش رفت سامنے کیوں نہیں آ رہی؟

پنڈورا پیپرز کو سامنے آئے ڈیڑھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے تاہم ان میں موجود وفاقی کابینہ کے ارکان سمیت سیاستدانوں، سابق فوجی افسران، صحافتی مالکان اور کاروباری شخصیات کی جواب طلبی کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے قائم کردہ خصوصی سیل کی جانب سے اب تک کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
 اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر پاکستان میں پنڈورا پیپرز کی تحقیقات میں شامل صحافیوں نے بتایا کہ تین اکتوبر کو پنڈورا پیپرز سامنے آنے کے بعد سے اب تک ان سے وزیراعظم انسپکشن ٹیم کے سربراہ احمد یار ہراج کی قیادت میں قائم خصوصی سیل نے ایک مرتبہ رابطہ کرکے ڈیٹا مانگا جس پر انہیں بتایا گیا کہ انہوں نے اپنی خبروں میں نام دے دیے ہیں اب حکومت پر منحصر ہے کہ وہ اپنے طور پر تحقیقات کر کے معلوم کرے کہ آف شور کمپنیاں جائز طریقے سے بنائی گئیں یا ان میں کوئی بدعنوانی کی گئی ہے۔
گزشتہ ماہ کے آغاز میں ’پنڈورا پیپرز‘ کے نام سے صحافیوں کی تحقیقاتی تنظیم انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) اور ان کے پارٹنر میڈیا اداروں کی طرف سے کی جانے والی تحقیق  سامنے آئی تھی جس میں دنیا بھر میں آف شور کمپنیوں کے مالکان کی تفصیلات موجود تھیں۔
پاکستان میں جن افراد کی آف شور کمپنیاں سامنے آئی تھیں ان میں حکمران پاکستان تحریک انصاف کے ایک اہم اتحادی سمیت کابینہ کے تین ارکان اور ان کے اہل خانہ، مسلم لیگ ن کے سیاستدانوں اور فوجی افسران سمیت کاروباری افراد اور ان کے اہل خانہ کے نام بھی سامنے آئے تھے۔
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے پنڈورا پیپرز میں پاکستانی سیاستدانوں، سابق فوجی افسران اور ان کے اہلِ خانہ سمیت تقریبا 700 پاکستانیوں کی آف شور کمپنیز کی معلومات سامنے آنے کے بعد ان تمام افراد سے جواب طلبی کے لیے خصوصی سیل قائم کیا تھا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ تحقیقات کے نتیجے میں اگر کچھ غلط ثابت ہوتا ہے تو ان افراد کے خلاف مناسب کارروائی کی جائے گی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

سیل کے قیام کا اعلان  کرتے ہوئے پاکستان کے وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ وزیراعظم انسپکشن کمیشن کے تحت قائم اعلیٰ سطح کا سیل پنڈورا لیکس میں شامل تمام افراد سے جواب طلبی کرے گا اور حقائق قوم کے سامنے رکھیں جائیں گے۔
خود وزیراعظم عمران خان نے بھی متعدد ٹویٹس میں کہا تھا کہ تحقیقات کے نتیجے میں اگر کچھ غلط ثابت ہوتا ہے تو ان افراد کے خلاف مناسب کارروائی کی جائے گی۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم ٹیکس چوری اور بدعنوانی سےجمع کر کے منی لانڈرنگ کے سہارے بیرونِ ملک ٹھکانے لگائی جانے والی اشرافیہ کی ناجائز دولت بے نقاب کرنے والے پنڈورا پیپرز کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ میری حکومت اپنے ان تمام شہریوں کی پڑتال کرے گی جن کے نام پنڈورا پیپرز میں آئے ہیں اور اگر کچھ غلط ثابت ہوا تو ہم مناسب کارروائی عمل میں لائیں گے۔‘

وزیراعظم معائنہ کمیشن کا پنڈورا پیپرز سامنے لانے والے صحافیوں سے رابطہ

اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر آئی سی آئی جے کے پاکستان میں نمائندے عمر چیمہ نے بتایا کہ ان سے حکومتی سیل کے نمائندے نے رابطہ کرکے ڈیٹا مانگا تھا تاہم ان کا کہنا تھا کہ جو معلومات دستیاب تھیں وہ اپنی خبروں کے ذریعے فراہم کر چکے ہیں اب نادرا، ایف بی آر اور  ایف آئی اے سمیت دیگر حکومتی اداروں کا کام ہے کہ وہ تحقیقات کریں۔
اس حوالے سے اردو نیوز نے وزیراعظم کے قائم کردہ سیل کے سیکرٹری صالح ناریجو سے رابطہ کیا۔ اردو نیوز کی طرف سے سیل کی اب تک کی پیش رفت کے حوالے سے استفسار پر  صالح ناریجو کا کہنا تھا کہ وہ اس پر ایک لفظ کا تبصرہ بھی نہیں کر سکتے۔

حکومت کی طرف سے اب تک خود بھی تحقیقات کے حوالے سے میڈیا کو کوئی آگاہی نہیں دی گئی ہے۔ (فوٹو: آئی سی آئی جے)

ان سے پوچھا گیا کہ کیا کمیشن کی کارروائی خفیہ ہے تو انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے بھی وہ اپنی رائے نہیں دے سکتے۔ سیل کے سربراہ احمد یار ہراج سے متعدد بار کوشش کے باجود رابطہ نہیں ہو سکا۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے رابطہ کیا گیا تو ایف بی آر کے ترجمان اسد طاہر جپہ نے بتایا کہ پنڈورا پیپرز پر ایف بی آر اپنے طور پر کوئی تحقیقات نہیں کر رہا بلکہ وزیراعظم کی طرف سے قائم کردہ سیل ہی تمام تر تحقیقات کی نگرانی کر رہا ہے۔
حکومت کی طرف سے اب تک خود بھی تحقیقات کے حوالے سے میڈیا کو آگاہی نہیں دی گئی حالانکہ کمیشن کے سربراہ احمد یار ہراج نے چند ہفتے قبل ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ کمیٹی نے بہت سارا کام مکمل کر لیا ہے اور اگلے چند روز میں وہ اس کے بارے میں ایک پریس کانفرنس کرنے والے ہیں۔

پنڈورا پیپرز میں کون سی اہم شخصیات شامل ہیں؟

 پنڈورا پیپرز میں وزیراعظم عمران خان کے قریبی حلقے میں شامل افراد کے نام آنے کے بعد اپوزیشن کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وزیراعظم اس سکینڈل کی تحقیقات  میں بھی پانامہ کی طرح جوش وخروش دکھائیں۔
پنڈورا پیپرز میں جن شخصیات کے نام سامنے آئے ہیں ان میں مشیر خزانہ شوکت عزیز، اتحادی جماعت مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر آبی وسائل مونس الہی کا نام بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ ان دستاویزات میں کابینہ کے رکن خسرو بختیار کے بھائی کے علاوہ سابق وزیر اور پی ٹی آئی رہنما فیصل واوڈا، سابق صوبائی وزیر عبدالعلیم خان اور سابق مشیر برائے خزانہ اور ریوینیو وقار مسعود کے بیٹے کی بھی آف شور کمپنیوں کا ذکر سامنے آیا تھا۔
اس کے علاوہ مسلم لیگ ن کے سابق وزیرخزانہ اسحق ڈار کے بیٹے علی ڈار، میڈیا مالکان اور سابق فوجی افسران کے نام بھی آف شور کمپنیوں کے مالکان کے طور پر سامنے آئے تھے۔
تاہم ان تمام افراد نے پنڈورا پیپرز سامنے آنے کے بعد کسی بھی قسم کی بے قاعدگی سے انکار کیا ہے۔

  ایف بی آر کے ترجمان اسد طاہر جپہ نے بتایا کہ پنڈورا پیپرز پر ایف بی آر اپنے طور پر کوئی تحقیقات نہیں کر رہا۔ (فوٹو: اے پی پی)

یاد رہے کہ ماہرین کے مطابق محض آف شور کمپنی بنانا غیر قانونی نہیں کیونکہ یہ بعض اوقات کاروباری شخصیات کو  بغیر کسی خلاف ورزی کے ٹیکس بچانے کے راستے مہیا کرتی ہیں اور بزنس میں آسانی فراہم کرتی ہیں تاہم اس کام کو غیر اخلاقی ضرور سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے سیاستدان اور اہم افراد اپنے ملک سے سرمایہ نکال کر دیگر ممالک بھی لے جاتے ہیں اور اس سے کئی بار غیر قانونی طریقے سے بنایا گیا کالا دھن بھی سفید کیا جاتا ہے جو کہ غیر قانونی عمل ہے۔
ماہرین کے مطابق خفیہ کمپنیوں میں پیسہ رکھنا اور اسے ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنا غیر قانونی دولت چھپانے کا بھی بہترین طریقہ ہے۔

شیئر: