Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’فرانس دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب سے سیکھ سکتا ہے‘

فرانسیسی سینیٹر نے کہا کہ ’زکوٰۃ اکٹھا کرنے کے حوالے سے سعودی عرب ہمارے لیے ایک مثال بن سکتا ہے۔ (عرب نیوز)
ایک معروف فرانسیسی سیاست دان اور خارجہ امور کی ماہر نتھالی گولیٹ کا کہنا ہے کہ فرانس اور یورپی ممالک دہشت گردی کی مالی معاونت سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب کی حکمت عملی سے سیکھ سکتے ہیں۔
فرانس کی سینیٹ اور وزارت خارجہ اور دفاعی امور کمیشن کی رکن نتھالی گولیٹ نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ’دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے کے موضوع پر سعودی عرب کی اپنی ایک پوزیشن ہے اور وہ اسے بہت سنجیدگی سے کرتے ہیں۔ سعودی عرب دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے کے لیے بین الاقوامی معیار کے مطابق کام کر رہا ہے۔‘
نتھالی گولیٹ نے مملکت میں حال ہی میں دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے کی مہم کے بارے میں سینیئر پالیسی سازوں سے ملاقاتیں کی ہیں، انہوں نے انتہا پسندانہ نظریات کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم سینٹر اعتدال کے ساتھ سعودی عرب، مرکزی بینک اور مالی انٹیلی جنس سروسز کے اقدامات پر روشنی ڈالی۔
’فرینکلی سپیکنگ‘ کے ساتھ بات کرتے ہوئے نتھالی گولیٹ نے اخوان المسلمین سے بڑھتے خطرے اور دہشت گردی کی مالی معاونت میں اس کے کردار، فرانس اور الجزائر کے درمیان غیر مستحکم تعلقات اور وژن 2030 حکمت عملی کے تحت سعودی عرب میں اصلاحات سے متعلق بات چیت کی۔
انہوں نے کہا کہ فرانس میں مسلمانوں کی جانب سے نقد رقوم کی شکل میں زکوٰۃ اکٹھا کرنے کے طریقے سے ان کو پریشانی کا سامنا ہے کیونکہ اس کی نگرانی ایک پیچیدہ عمل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’زکوٰۃ اکٹھا کرنے کے حوالے سے سعودی عرب ہمارے لیے ایک مثال بن سکتا ہے کیونکہ ہم رقم کا سراغ لگانے میں مکمل طور پر ناکام ہیں۔‘
نتھالی گولیٹ کے مطابق سعودی عرب نے نقد رقم کی صورت میں زکوٰۃ کی وصولی روکنے کے لیے ایک نظام وضع کیا ہے۔ سب کچھ بینکنگ ٹرانسفر کے ذریعے ہوتا ہے اور یہ بہت مفید اور بہت محفوظ بھی ہے۔

’فرینکلی سپیکنگ‘ کے میزبان فرینک کین ہیں۔ (فوٹو: عرب نیوز)

انہوں نے کہا کہ ’زکوٰۃ جمع کرنے کے حوالے سے سعودی عرب ہمارے لیے ایک مثال بن سکتا ہے کیونکہ ہم رقم کا سراغ لگانے میں بالکل ناکام ہیں۔ ظاہر ہے کہ زکوٰۃ کا زیادہ تر حصہ اچھے مقاصد کے لیے دیا جاتا ہے تاہم بعض اوقات ایسا نہیں ہوتا اور ہم زیادہ سے زیادہ نقد رقم پر پابندی لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سعودی عرب ہمیں ایک بہترین مثال دے رہا ہے۔‘
ان کے مطابق کہ اخوان المسلمین اب بھی یورپ میں دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کر رہا ہے، انہوں نے مسلم کمیونٹی اور امدادی اداروں میں اخوان المسلمین کے اثر رسوخ کی نشاندہی کی۔
انہوں نے کہا کہ ’اخوان المسلمین کی یورپ میں بہت زیادہ امدادی سرگرمیاں ہیں تاہم پھر وہ اس رقم کو پورے یورپ میں دہشت گردی کی سرپرستی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ہمیں یقینی طور پر ان لوگوں پر پابندی لگانی ہے، آسٹریا نے پہلے ہی اخوان المسلمین پر پابندی لگائی ہے، جرمنی بھی ایسا کرنے جا رہا ہے۔ فرانس نے ابھی تک ایسا قدم نہیں لیا لیکن ایسا کرنے کے لیے میں ان پر زور دے رہی ہوں۔‘
دہشت گردی کی مالی معاونت سے نمٹنے کے لیے مملکت کا عزم  وژن 2030 کے اصلاحاتی منصوبے کے تحت مثبت تبدیلیوں کی ایک مثال ہے۔ جس کا سعودی عرب میں زندگی پر گہرا اثر پڑا ہے۔
نتھالی گولیٹ نے کہا کہ ’جب آپ سڑکوں پر فرق دیکھتے ہیں، جیسا کہ ملک نوجوان خوش ہیں تو جب آپ یہ ترقی دیکھتے ہیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ کچھ کیا گیا ہے۔ یہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا ویژن 2030 ہے جس نے اس کو عملی جامہ پہنایا ہے اور یہ ملک میں بہت سی امیدیں لائے گا۔‘

شیئر: