Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بغیر ایم ٹیگ گاڑیوں کا موٹروے پر داخلہ بند: ’آدھا تیتر آدھا بٹیر بنایا ہوا ہے‘

روزانہ لاکھوں مسافر اور کارگو گاڑیاں موٹرویز استعمال کرتی ہیں (فوٹو: این ایچ ایم پی)
نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹرویز پولیس کی جانب سے سات دسمبر سے ایم ٹیگ نہ رکھنے والی گاڑیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے کہ وہ اب موٹروے پر داخل نہیں ہو سکیں گی۔
موٹروے پولیس کے اس اعلان کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے دیے گئے عدالتی حکم کے تناظر میں کیا گیا اقدام قرار دیا گیا تاہم سوشل ٹائم لائنز پر اس سے متعلق ہونے والی گفتگو میں جہاں مختلف تحفظات کا اظہار کیا گیا، وہیں فیصلے پر تکنیکی اور قانونی سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔
نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹرویز پولیس کی جانب سے سوشل میڈیا پر ہی اعلان کیا گیا تھا کہ سات دسمبر سے ایم ٹیگ نہ رکھنے والی گاڑیاں موٹروے پر داخل نہیں ہو سکیں گی اور صرف ایم ٹیگ والی گاڑیاں ہی موٹرویز پر سفر کر سکیں گی۔
 اس اعلان میں ایم ٹیگ سے متعلق معلومات کے لیے رابطہ نمبر اور دیگر تفصیلات بھی صارفین سے شیئر کی گئی تھیں۔
ایم ٹیگ کے بغیر گاڑیوں کی تمام موٹرویز پر بندش کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنانے والے افراد میں کچھ کا موقف تھا کہ عدالتی فیصلہ صرف ایم ٹو (اسلام آباد، لاہور موٹروے) سے متعلق تھا اسے تمام موٹرویز پر کیوں لاگو کیا جا رہا ہے۔
 سینئر صحافی حامد میر اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’لاہور ہائی کورٹ کا حکم صرف لاہور اسلام آباد موٹروے (ایم ٹو) کے بارے میں ہے تمام موٹر ویز کے بارے میں نہیں عدالت عالیہ کے حکم کے مطابق یہ پابندی صرف ایم ٹو تک محدود رکھی جائے۔ عدالت نے یہ حکم اس لیے دیا تھا کیونکہ حکومت نے گاڑیوں کا دھواں سموگ کی وجہ قرار دیا۔‘

سات دسمبر سے ایم ٹیگ کے بغیر گاڑیوں کے داخلے پر پابندی کو عجلت میں کیا گیا فیصلہ قرار دینے والوں کی بھی کمی نہیں رہی۔ متعدد صارفین نے نشاندہی کی کہ موٹروے انتظامیہ نے فیسلے کا اعلان تو کر دیا لیکن یہ ابھی تک نہیں بتایا کہ ہزارہ موٹروے، پنڈی بھٹیاں، فیصل آباد موٹروے سمیت متعدد مقامات پر ایم ٹیگ جاری کرنے، چارج کرنے یا سکین کرنے کی سہولت ہی نہیں ہے تو پھر لوگوں سے مستقبل میں کیے جانے والے سفر کی ایڈوانس رقم کس بنیاد پر وصول کی جائے گی۔

اشتیاق خورشید نامی صارف نے موٹروے پولیس کو ٹول ٹیکس وصول کرنے والے مراکز کی طرف متوجہ کیا تو لکھا ’آپ ایم ٹیگ والی گاڑی کے باوجود پرچیاں پکڑا رہے ہوتے اور عوام ذلیل ہوتی اس کا بھی کچھ سوچ لیں ورنہ اس کمپین کا کوئی فائدہ نہیں، آدھا تیتر آدھا بٹیر بنایا ہوا ہے۔‘

ایم ٹیگ کے بغیر ہر گاڑی کے داخلے پر پابندی کو عالمی رجحانات کے خلاف قرار دینے والوں کی بھی کمی نہیں رہی۔ سینئر صحافی مرتضی سولنگی نے سوال اٹھایا کہ ’امریکہ جیسے ملک میں بھی ٹول پلازا پر الیکٹرانک ٹیگ کے علاوہ کیش بھی چلتا ہے۔ ’کیا پاکستان امریکہ سے بھی زیادہ ترقی یافتہ ہو گیا ہے؟‘

ایم ٹیگ کی افادیت کے قائل مگر ہر ایک کے لیے اس کا لازم ہونے سے غیرمتفق صارفین نے تجویز دی کہ ٹیگز سے متعلق یہ پابندی صرف ان گاریوں کے لیے رکھی جائے جو روزانہ موٹروے پر سفر کرتی ہیں، کبھی کبھار سفر کرنے والوں کو اس سے استثنی دیا جائے تاکہ ہر ایک کو بھاری رقم خرچ کر کے ایم ٹیگ چارج نہ کرنا پڑے۔
عام مشاہدہ ہے کہ معاملہ کوئی بھی ہو، جب وہ سوشل ٹائم لائنز پر گفتگو کا موضوع بنتا ہے تو اس پر تکنیکی، قانونی اور اخلاقی حوالوں سے اعتراضات کرنے والوں کے ساتھ ساتھ کچھ حمایت کرنے والے بھی میسر آ جاتے ہیں۔
نیشنل ہائی وے اینڈ موٹروے پولیس کے حالیہ اقدام کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تو فیصلے کی حمایت کرنے والوں نے اسے خوش آئند قرار دیا۔ امنہ زرین نامی صارف نے لکھا کہ ’اچھا فیصلہ ہے، ورنہ اسلام آباد یا لاہور موٹر وے ٹول پلازہ پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں اور اکثر ان کے کمپیوٹر ہینگ ہو جاتے جو ڈیوٹی والے کو ٹھیک ہی نہیں کرنا آتا۔’

اجمل ولی نامی ٹویپ بھی فیصلے سے متفق دکھائی دیے تو انہوں نے موقف اپنایا کہ ’اس (فیصلے) پر ضرور عمل ہونا چاہیے، ہر گاڑی اس وقت سڑک پر آئے جب اس کی نمبر پلیٹ کے ساتھ ایم ٹیگ بھی اوکے ہو‘۔
مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹرویز پولیس کے فیصلے پر تنقید کی گئی اور یہ سلسلہ بڑھا تو ادارے کی جانب سے سبھی اعتراضات کے جوابات تو نہیں دیے گئے، البتہ مزید کچھ معلومات شیئر کی گئیں جن سے ایم ٹیگز چارجنگ کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

ایک الگ ٹویٹ میں صارفین کو بتایا گیا کہ وہ مختلف ریسٹ ایریاز، ٹول پلازوں کے ساتھ ساتھ برانچ لینس بینکنگ کے ذرائع ایزی پیسہ، یو پیسہ اور جاز کیش کے ساتھ ساتھ متعلقہ ایپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کر کے اس سے بھی ٹیگز چارج کر سکتے ہیں۔

شیئر: