Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسانی اعضا کی غیرقانونی پیوند کاری، ترکی میں بڑا نیٹ ورک پکڑا گیا

پولیس نے چھاپے کے دوران جعلی دستاویزات اور رقم قبضے میں لے لی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ترکی کے حکام نے استنبول میں اردنی اور فلسطینی شہریوں پر مشتمل انسانی اعضا کی تجارت کرنے والے ایک بڑے گروہ کو پکڑا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق اس گروہ کے چار ممبران اور چھ دیگر افراد گرفتار کیا گیا ہے جو اپنے اعضا فروخت کرنے والے تھے یا پیوند کاری کروانے والے تھے۔ گروہ کے چاروں ارکان کو اسی وقت جیل بھیج دیا گیا۔
یہ نیٹ ورک استنبول کے مشرقی علاقے میں واقع ایک ہسپتال میں جعلی دستاویزات کے ذریعے اپنا کاروبار چلا رہا تھا اور ہر کیس کے 50 ہزار امریکی ڈالرز وصول کر رہا تھا۔
یہ کیس اس وقت سامنے آیا جب ترک ڈاکٹرز نے پولیس کو اطلاع کی کہ مریض اور اعضا کا عطیہ کرنے والوں کے درمیان کوئی رشتہ نہیں ہے اور وہ آپس میں بہت کم بات چیت کرتے ہیں۔
جب پولیس نے فلسطینی سفارت خانے سے رابطہ کیا تو اس نے اس بات سے انکار کیا کہ سفارت خانے نے پکڑے جانے والے کسی فرد کو رشتہ داری کی دستاویزات بنا کر دی تھیں۔
پولیس نے ہسپتال کے ریکارڈ اور قریب ہی واقع ہوٹل کی نگرانی کرنے کے بعد اس گروہ کا پتا لگا لیا۔ اس آپریشن میں ہوٹل پر دو چھاپے مارے گئے۔
اس گروہ کے سرغنہ حسن بی سوشل میڈیا کے ذریعے اعضا عطیہ کرنے اور لگوانے والوں کا سراغ لگاتے تھے۔ دیگر ممبران میں حسن عبدل، علی اور احمد شامل تھے جنہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
یہ گروہ ایسی دستاویزات بناتا تھا جنہیں دیکھ کر لگتا تھا کہ انہیں کسی غیرملکی سفارت خانے نے بنایا ہے۔
پولیس نے چھاپے کے دوران جعلی دستاویزات اور رقم قبضے میں لے لی ہے۔ ہر کیس میں 50 ہزار ڈالرز میں سے 10 ہزار اعضا عطیہ کرنے والے کو دیا جاتا تھا، 15 ہزار ہسپتال کو اور 25 ہزار ڈالرز یہ گروہ لیتا تھا۔

 ٹرانسپلانٹ کروانے والے اور عطیہ کرنے والے چھ افراد کو رہا کردیا گیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

 ٹرانسپلانٹ کروانے والے اور عطیہ کرنے والے چھ افراد کو رہا کر دیا گیا جن کا تعلق اردن اور فلسطین سے تھا۔
اس خطے میں انسانی اعضا کی سمگلنگ اور غیر قانونی پیوند کاری میں اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ برس متعدد شامی پناہ گزین اپنے اعضا فروخت کرتے پائے گئے۔
یہ گروہ فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے حالات سے مجبور پناہ گزین ڈونرز کو ڈھونڈتا تھا جو اپنا جگر یا گردے عطیہ کرتے تھے، تاہم انہیں نہ تو پوری رقم دی جاتی تھی اور نہ ہی بعد میں ان کا خیال رکھا جاتا تھا۔

شیئر: