بلوچستان کے ضلع کیچ میں بڑی تعداد میں نایاب جنگلی حیات کے غیر قانونی شکار میں ملوث اسلحہ ڈیلر کے خلاف مقدمہ درج کر کے اسے گرفتار کرلیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ملزم نے اپنے تین دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر چار ہرن، 12 تلور، 14 جنگلی خرگوش اور دو تیتروں کا شکار کیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر کیچ حسین جان بلوچ نے اردو نیوز کو بتایا کہ یہ واقعہ گوادر کے علاقے پسنی سے متصل ضلع کیچ کے علاقے شادی کور میں دو دن قبل پیش آیا تھا تاہم حکام کو ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد اس کا علم ہوا جس کے بعد ان کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی۔
مزید پڑھیں
-
مارگلہ کی پہاڑیوں میں معدومیت کے خطرے سے دوچار تیندوے کا جلوہNode ID: 537616
-
پنجاب میں ایئر گن سے پرندوں اور جانوروں کا شکار غیر قانونی کیوں؟Node ID: 611316
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں شکار کیے ہوئے ہرن، تلور، جنگلی خرگوش اور تیتر نظر آرہے ہیں۔ ویڈیوز میں شکار کرنے والے افراد فخر سے بتارہے ہیں کہ انہوں نے کتنی تعداد میں نایاب جنگلی حیات کا شکار کیا ہے اور کیسے اڑتے ہوئے تلوروں کو مارا۔
محکمہ جنگلی حیات کے کنزویٹر نیاز کاکڑ کے مطابق شکار کیے گئے جنگلی حیات میں سب سے قیمتی تلور ہیں جو خطرے سے دو چار پرندوں کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مہمان پرندے ستمبر سے مارچ تک سائیبریا سے ہجرت کرکے بلوچستان کے گرم علاقوں کی طرف آتے ہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ تلور خطرے سے دو چار پرندوں میں سے ایک ہے جس کے غیر قانونی شکار میں ملوث افراد کی قانون میں ضمانت کی بھی اجازت نہیں ۔
محکمہ جنگلات و جنگلی حیات کے کنزویٹر نے بتایا کہ شکار کیے گئے تلوروں میں ایک کے پاؤں میں ٹیگ بھی نظر آرہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کوئی فارمی تلور ہے۔ ان کے بقول عرب شیوخ نے تلور کی نسل بڑھانے کے لیے فارم بھی قائم کر رکھا ہے جہاں وہ تلور کی افزائش کرکے انہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ ان عرب فارم کے تلوروں میں سے ہوں۔
نسلی کشی کی انتہا۔۔۔ کہاں ہے بلوچستان کے محافظ#تربت کے علاقے میں #شادی_کور_ندی میں یہ عاقب بلوچ نامی شخص سرعام جانوروں کی نسل کشی کر رہا ہے کوئی تو اس بے حس کو سمجھاو @ZahoorBuledi @Senator_Baloch @dpr_gob @safekids @HammalKalmati_ @Meena_Majeed @MHidayatRehman pic.twitter.com/4B55bCRZVd
— Naeema (@zehrijournalist) January 1, 2022
نیاز کاکڑ کے مطابق ملزمان نے چار چنکارا ہرن کا بھی شکار کیا ہے جسے بلوچستان وائلف لائف ایکٹ 2014کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ یہ ہرن صوبے کے گرم علاقوں میں پایا جاتا ہے اور اس کے شکار پر جرمانہ اور قید کی سزا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ خطرے سے دو چار جنگلی جانوروں اور پرندوں کا شکار کرنے والوں کے خلاف محکمہ جنگلی حیات نے ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ملکر کارروائی کی ہے اور ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرکے ان میں سے ایک کو گرفتار کرلیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر کیچ حسین جان بلوچ کے مطابق چار ملزمان کے خلاف ڈویژنل فاریسٹ آفیسر کی مدعیت میں بلوچستان وائلڈ لائف ایکٹ کی چھ دفعات کے تحت لیویز تھانہ تربت میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گرفتار ملزم عاقب اسلحہ ڈیلر ہے۔ ملزم کا اسلحہ لائسنس اور تربت میں واقع اسلحے کی دکان کی رجسٹریشن منسوخ کرکے دکان سیل کردی گئی ہے۔ باقی ملزمان کی گرفتاری کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں۔
ایف آئی آر کے مطابق شکار کیے گئے تلوروں کی تعداد چار ہے لیکن وائلڈ لائف کنزویٹر نیاز کاکڑ نے ان کی تعداد 12 بتائی ہے۔
نیاز کاکڑ کے مطابق ملزمان کو وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ کی دفعات کے تحت درج کیے گئے مقدمے میں کم از کم پانچ سال قید اور لاکھوں روپے کا جرمانہ ہوسکتا ہے۔
ان کا کہناتھا کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کوئٹہ، ژوب اور پشین میں بھی درخت کاٹنے اور جنگلی حیات کے غیر قانونی شکار پر کئی مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
اس سے قبل تربت میں تلور اور ہرن کے غیر قانونی شکار کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے صارفین نے سخت غم و غصے کا اظہار کیا تھا اور ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔
نعیمہ نے لکھا کہ ’نسل کشی کی انتہاء۔ کہاں ہے بلوچستان کے محافظ؟۔ تربت کے علاقے شادی کور ندی میں سرعام جانوروں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔‘
سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے ٹوئٹر پر تبصرہ کیا کہ یہ شکار نہیں بلکہ قدرتی ورثے کی تباہی اور جنگلی حیات کی نسل کشی ہے ۔لوگوں کو اس قسم کے پاگل پن کی مذمت کرنی چاہیے۔












