Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عارف گُل سپریم کورٹ میں پیش، ’حراستی مراکز کا معاملہ لارجر بینچ میں زیر التوا ہے‘

عدالت نے عارف گل حبس بے جا کیس حراستی مراکز کیس کے ساتھ یکجا کر دیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کی سپریم کورٹ میں شہری کو حبس بے جا میں رکھنے کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران خیبر پختونخوا پولیس نے عارف گل کو پیش کیا ہے۔
منگل کو عدالت نے عارف گل کی حبس بے جا میں رکھنے کے خلاف درخواست کو حراستی مراکز کی آئینی حیثیت سے متعلق پہلے سے زیر سماعت کیس کے ساتھ منسلک کرنے کی ہدایت کی۔  
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کو خیبر پختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل شمائل بٹ نے بتایا کہ عدالت کے حکم پر زیر حراست عارف گل کو پیش کر دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس  نے عارف گل کو روسٹرم پر بلایا۔ ڈارک براون شلوار قمیض اور سویٹر میں ملبوس باریش عارف گل کو پولیس اہلکار بازو سے پکڑ کر روسٹرم پر لائے۔
چیف جسٹس نے عارف گل سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ 'جی بتائیں کہ آپ کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ عارف گل نے ساتھ کھڑے ایڈووکیٹ جنرل سے پوچھا کہ چیف جسٹس کیا پوچھ رہے ہیں؟
چیف جسٹس نے اپنا سوال دہرایا مگر وہ پھر بھی سوال نہ سمجھ سکے تو ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’یہ اردو نہیں سمجھ سکتا۔ آپ سوال کریں میں ترجمہ کر دیتا ہوں۔‘
ایڈووکیٹ جنرل نے ترجمہ کیا جس کے مطابق عارف گل نے بتایا کہ کہ 'میں ہوٹل پر کام کرتا تھا. کسی نے شکایت کی، مجھے گرفتار کر لیا گیا۔' 
جسٹس قاضی امین نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل یہ بتائیں عارف گل پر الزام کیا ہے۔ 
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’عارف گل پر الزامات کی چارج شیٹ گزشتہ روز عدالت میں جمع کروا دی گئی تھی۔ عارف گل پر سیکورٹی پوسٹ پر حملے کا الزام ہے۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عارف گل افغان شہری ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے بتایا کہ فی الحال اس کا شناختی کارڈ کینسل ہے اس حوالے سے مزید تحقیقات ہو رہی ہیں۔ اس وقت عارف گل کی کونسلنگ کی جا رہی ہے اور بحالی کا عمل جاری ہے۔‘

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت سے عارف گل کا کیس حراستی مراکز کے مقدمے سے منسلک کرنے کی استدعا کی۔ فوٹو: سکرین گریب

اس موقع پر اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے اور عدالت سے استدعا کی کہ ’عارف گل کی شناخت ہو گئی ہے۔ پشاور ہائی کورٹ نے بھی اسی بنیاد پر اس پٹیشن کو خارج کیا تھا کہ عارف گل کی شناخت اور دیگر قانونی لوازمات پورے ہو رہے تھے۔ میری استدعا ہے معاملہ کو نمٹا دیں یا لارجر بینچ میں زیر التوا کیس کے ساتھ منسلک کر دیں۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’حراستی مراکز کا معاملہ لارجر بینچ میں زیر التوا ہے.‘
عدالت نے عارف گل کی درخواست کو حراستی مراکز سے متعلق پہلے سے زیر التوا کیس کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے عارف گل کی اہلخانہ سے پندرہ دنوں میں ایک ملاقات کا حکم دیا۔ 
اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ عدالت عارف گل کے اہل خانہ سے ملاقات کے لیے اسی طریقہ کار کا حکم دے جو باقی افراد کے لیے ہے۔ 
عدالت نے حکم دیا کہ عارف گل کو حراستی مرکز میں مکمل سیکیورٹی فراہم کی جائے۔ عارف گل کے اہلخانہ سے ملاقات کے لیے وہی طریقہ کار رکھا جائے جو باقی افراد کے لیے ہے۔ 
عدالت نے عارف گل حبس بے جا کیس حراستی مراکز کیس کے ساتھ یکجا کر دیا۔ 
کیس کے خاتمے پر جب پولیس عارف گل کو لے کر روانہ ہوئی تو کمرہ عدالت میں موجود ان کے ضعیف دادا نے ان کا بازو پکڑا اور مصافحہ کیا۔ پولیس اہلکاار عارف گل کو لے کر واپس حراستی مرکز کوہاٹ روانہ ہو گئے۔ 
سماعت شروع ہونے سے پہلے جب پولیس عارف گل کو لے کر کمرہ عدالت میں پہنچی تو ان کے دادا اور دیگر رشتہ دار ان کو دیکھ کو خوش ہوئے لیکن ان سے ملنے کے لیے ان کی نشست پر نہ گئے۔
جب ان سے کسی نے پوچھا کہ وہ اپنے پوتے سے ملنا چاہیں گے تو بزرگ شہری نے جواب دیا کہ اگر پولیس اجازت دے گی تو ملیں گے۔ 
اردو نیوز نے عارف گل کے داد سلطان محمد سے پوچھا کہ کہ آپ نے اپنے پوتے کو کتنے عرصے بعد دیکھا ہے؟ اس پر انھوں نے جواب دیا کہ 'دو سال دس ماہ بعد اپنے پوتے کو دیکھا ہے۔ میں نے اس کو پہچان لیا ہے یہ عارف گل ہی ہے لیکن کمزور لگ رہا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ 'جمیل چوک پشاور پر ہمارا گھر اور ہوٹل ہے۔ عارف گل ادھر ہی کام کرتا تھا کہ ایک دن ان کو اٹھا لیا گیا۔ ان کے ساتھ کچھ اور بھی لوگوں کو اٹھایا گیا تھا جو واپس آ چکے ہیں۔‘ 

شیئر: