Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مری میں ہلاکتیں: انکوائری کمیٹی کن 8 سوالوں کے جواب تلاش کرے گی؟

انکوائری کمیٹی کو سات دن میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
سیاحتی مقام مری میں شدید برفباری کے دوران پھنس کر گاڑیوں میں 23 سیاحوں کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے قائم کی گئی پنجاب حکومت کی کمیٹی کے سامنے سات سوالات رکھے گئے ہیں۔
اتوار کو پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے دورہ مری کے بعد قائم کی جانے والی انکوائری کمیٹی کُل پانچ ارکان پر مشتمل ہے۔
جاری کیے گئے نوٹیفیکیشن کے مطابق انکوائری کمیٹی کے کنوینئر پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری ظفر نصراللہ ہوں گے جبکہ اس کمیٹی کے ارکان میں پنجاب حکومت کے دو سیکریٹریز علی سرفراز اور اسد گیلانی کے ساتھ ایڈیشنل آئی جی پنجاب فاروق مظہر شامل ہیں۔ کمیٹی کے ارکان ایک مزید ممبر بھی شامل کر سکیں گے۔
نوٹیفیکیشن میں انکوائری کمیٹی کے ٹرمز آف ریفرنس بھی دیے گئے ہیں۔
کمیٹی ان آٹھ سوالات کے جواب تلاش کرے گی کہ کیا محکمہ موسمیات کی جانب سے متعدد موسمیاتی وارننگ کے اجرا کے بعد متعلقہ محکموں جیسے کہ ضلعی انتظامیہ، پولیس، ٹریفک پولیس، سی اینڈ ڈبلیو، این ایچ اے، این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے وغیرہ نے بحرانی صورتحال سے بچنے کے لیے کوئی مشترکہ منصوبہ بنایا؟
کمیٹی کے سامنے دوسرا سوال انکوائری کے لیے یہ رکھا گیا ہے کہ کیا پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے کوئی ٹریول ایڈوائزری جاری کی گئی تھی جس میں شہریوں سے کہا گیا ہو کہ وہ مری کا سفر کرنے سے گریز کریں؟
تیسرا سوال ہے کہ کیا حالیہ دنوں میں صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے بڑی تعداد میں گاڑیوں اور سیاحوں کے مری میں داخلے کو باقاعدہ بنانے یا کنٹرول کرنے کے لیے کوئی اقدامات کیے گئے تھے؟
انکوائری کمیٹی اس سوال کا جواب بھی تلاش کرے گی کہ کیا مری میں اسلام آباد اور گلیات کے راستوں سے داخل ہونے والی گاڑیوں کا ریکارڈ رکھا گیا اور جب ایک حد سے زیادہ گاڑیاں مری میں داخل ہو گئیں تو مزید کو داخل ہونے سے کیوں نہ روکا گیا؟ 

 انکوائری کمیٹی مری میں پیش آنے والے واقعے کے ذمہ دار افسران کا تعین بھی کرے گی۔ فوٹو: اے ایف پی

ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا بحران سے نمٹنے کے لیے کوئی منصوبہ ترتیب دیا گیا تھا؟ برف ہٹانے والی مشینری اور گاڑیوں کو ہٹانے والے لفٹرز متحرک کیے گئے تھے؟
انکوائری کمیٹی کے سامنے یہ سوال بھی ہے کہ کیا کوئی کنٹرول روم بنایا گیا تھا؟
کیا لوکل ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز کے ساتھ ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے رابطہ قائم کيا گیا؟
 ريسکيو آپریشن کتنی حد تک کامیاب رہا؟ کتنی گاڑیوں کو نکالا گیا اور اس سارے بحران میں کمی اور کوتاہی کن افسران کی تھی؟
انکوائری کمیٹی کو سات دن میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ 
وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے مری میں ہلاک ہونے والے افراد کے ورثا کے لیے ایک کروڑ 76 لاکھ روپے مالی امداد کااعلان بھی کیا-
جاری کیے گئے بیان کے مطابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے کہا کہ مری کو ضلع بنانے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے اور مری میں فوری طور پر ایس پی اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کے عہدوں کے افسروں کو تعینات کیا جائے گا۔
ادھر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے ایک بیان میں کہا کہ مری میں گاڑیوں کے داخلے پر پابندی کی مدت میں مزید 24 گھنٹوں کی توسیع کی گئی ہے۔
خیال رہے کہ سنیچر کو برفانی طوفان کے باعث مری میں پھنس جانے والے سیاحوں میں سے 23 کی گاڑیوں میں موت واقع ہو گئی تھی جس پر وفاقی اور پنجاب حکومت کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔

شیئر: