Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میانمار کی سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کو مزید چار برس قید کی سزا

فوجی بغاوت کے بعد مظاہروں میں 1400 سے زائد شہریوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔ فوٹو اے ایف پی
میانمار کی عدالت نے آنگ سان سوچی پر تین الزامات کے تحت فرد جرم عائد کرتے ہوئے مزید چار برس قید کی سزا سنائی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق میانمار کی 76 سالہ نوبل انعام یافتہ سیاسی رہنما آنگ سان سوچی پر غیرقانونی طریقے سے واکی ٹاکیز درآمد کرنے اور رکھنے کے علاوہ کورونا وائرس کے قواعد کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ 
 خیال رہے کہ گزشتہ سال یکم فروری کو میانمار کی فوج نے آنگ سان سوچی کی جمہوری حکومت کو اقتدار سے بے دخل کر کے انہیں حراست میں لے لیا تھا۔ اسی دن فوجی اہلکاروں نے آن سانگ سوچی کے گھر پر چھاپہ مارا تھا جس میں مبینہ طور پر غیر قانونی طریقے سے درآمد شدہ چھ واکی ٹاکیز برآمد ہوئے تھے۔
اس سے قبل عدالت نے گذشتہ برس دسمبر میں مہم کے دوران عوام کو اکسانے اور کورونا قواعد کی خلاف ورزی کے الزامات کی بنیاد پر چار برس قید کی سزا سنائی تھی، جس کے بعد عدالت نے مزید چار برس کی سزا سنا دی ہے۔
فوج کے سربراہ من آنگ ہلینگ نے سیاسی رہنما کی سزا کم کر کے دو برس کر دی تھی اور کہا تھا کہ وہ اس دوران دارالحکومت میں اپنے گھر میں ہی نظر بند رہیں گی۔ حالیہ عدالتی فیصلے کے بعد آنگ سان سوچی کی سزائے قید کی مجموعی مدت چھ سال ہو گئی ہے۔
دسمبر میں سنائی جانے والی سزا پر عالمی سطح پر تنقید کی گئی تھی اور عوام نے ایک مرتبہ پھر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے مظاہرے کیے تھے۔
آنگ سان سوچی کے خلاف عدالتی فیصلے سے قبل انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنطیم ہیومن رائٹس واچ سے منسلک ریسرچر مینی مانگ نے کہا تھا کہ مزید سزا سنانے کی صورت میں ملک بھر میں عدم اطمینان کی لہر دوڑ جائے گی۔
آنگ سان سوچی کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران صحافیوں پر پابندی عائد کی گئی تھی جبکہ ان کے وکیل کو میڈیا سے بات چیت کی اجازت نہیں ہے۔

آنگ سان سوچی کو مزید چار برس کی سزائے قید سنائی گئی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

اس سے پچھلی فوجی حکومت کے دور میں آنگ سان سوچی کو میانمار کے سب سے بڑے شہر ینگون میں ان کے آبائی گھر میں زیر حراست رکھا گیا تھا۔
تاہم اس مرتبہ انہیں دارالحکومت نیپٹا میں نامعلوم مقام پر نظر بند کیا گیا ہے جبکہ انہیں مقدمے کی سماعت سے پہلے صرف اپنے وکلا سے ملنے کی اجازت ہے۔
پیر کو سامنے آنے والے کیسز کے علاوہ آنگ سان سوچی کو بدعنوانی کے متعدد الزامات کا سامنا ہے جبکہ ہر جرم کی سزا 15 سال قید ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی رہنما کو نو آبادیاتی دور کے سرکاری راز کے قانون کی خلاف ورزی کے مقدمات کا بھی سامنا ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ سال فروری میں فوجی جنرل کے اقتدار پر قبضے کے ردعمل میں ملک بھر میں لہر دوڑ گئی تھی جس کے نتیجے میں سکیورٹی فورسز نے بڑی تعداد میں مظاہرین کو حراست میں لیا تھا۔ ان پر تشدد مظاہروں میں ایک ہزار 400 سے زیادہ شہریوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔

شیئر: